سیاست میں امکانات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ اس لیے سیاسی تبدیلیوں پر کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہوتا ہے۔ سیاست میں اگر کچھ مستقل یا دائمی سمجھا جاتا ہے تو وہ مفاد ہوتا ہے۔ اس لیے اتحاد بنانا اور اسے ایک مدت تک قائم رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بات الگ ہے کہ یہ مشکل کام جنتادل(یونائیٹڈ) کے سربراہ اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار بڑی آسانی سے کرتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے کہ کب کس اتحاد سے وابستہ ہوجائیں گے۔ ویسے یہ کہنے میں بھی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ گزشتہ ڈھائی دہائی میں وہ زیادہ وقت تک بی جے پی کی سربراہی والے اتحاد این ڈی اے میں رہے ہیں، اس لیے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو چھوڑ کر این ڈی اے میں ان کا واپس آجانا باعث حیرت نہیں ہے۔ اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی جانی چاہیے کہ گزشتہ بار این ڈی اے چھوڑتے وقت نتیش کمار نے کیا کہا تھا اور این ڈی اے میں انہیں واپس لینے کے سلسلے میں بی جے پی کے لیڈروں نے کیا کہا تھا۔ جو کہا، اس وقت کے سیاسی حالات کے حساب سے کہا، جو آج کہہ رہے ہیں، آج کے سیاسی حالات کی مناسبت سے کہہ رہے ہیں۔ سیاست میں کوئی اس بات کی پابندی تو ہے نہیں کہ جو بول دیا، اس پر قائم رہنا ہے۔ سیاست میں امکانات کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ نئی بات کہنے، نیا کرنے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ اسی لیے سمجھا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بھی فیصلہ یوں ہی نہیں لیا جاتا۔ اس کی کچھ وجہ ہوتی ہے۔ کچھ اشارہ دینا ہوتا ہے۔ للن سنگھ کو جے ڈی(یو) کے صدر کے عہدے سے ہٹاکر نتیش کمار خود صدر بنے تھے تو سمجھا گیا تھا کہ یہ ایک اشارہ ہے۔ سمجھا گیا تھا کہ اس فیصلے کی وجہ للن سنگھ کی لالوپرساد یادو سے قربت ہے۔ بعد میں نتیش کمار نے جے ڈی(یو) کی تشکیل نو کی تو اس میں للن سنگھ کو کوئی اہم عہدہ نہیں دیا گیا، چنانچہ بہار کی موجودہ سیاسی صورتحال میں للن سنگھ کا رول بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آنے والے دنوں میں ان کا رول کیسا ہوگا، اس پر بڑی حد تک بہار کی سیاست کا انحصار ہے۔ للن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’پارٹی کو کیا دقت ہے، کیا فیصلہ لینا ہے، یہ ہم میڈیا میں تو ڈِسکس کرتے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ میڈیا کا کام ہے۔ کیا فیصلہ لینا ہے، یہ ہمارا کام ہے۔ تو جو فیصلہ ٹھیک لگا، وہ ہمارے لیڈر نتیش کمار نے لیا ہے۔‘
للن سنگھ ایک منجھے ہوئے لیڈر ہیں۔ وہ بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں، کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا۔ کب کتنا بولنا ہے، اس لیے انتظار کیا جانا چاہیے کہ وہ آگے کیا کہتے ہیں، کس طرح کے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے 12فروری کو اب ایک ہفتہ بھی نہیں رہ گیا ہے۔ اسی دن نتیش کمار کو اپنی اکثریت ثابت کرنی ہے۔ یہ دکھانا ہے کہ اتحاد میں سب ٹھیک ہے۔ کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ کانگریس لیڈران اقتدار سے دور نہیں رہ پاتے۔ مگر اس بار کانگریس اعلیٰ کمان بہ ظاہر مستعدی دکھا رہا ہے۔ بہار کے ارکان اسمبلی کو اس نے دہلی بلایا ہے۔ خبر یہ ہے کہ پارٹی میں کسی طرح کی ٹوٹ پھوٹ روکنے کے لیے ارکان اسمبلی کو فی الوقت بہار سے باہر ہی رکھا جائے گا۔ ادھر جیتن رام مانجھی کے تیور نتیش کمار کے لیے باعث پریشانی ہوسکتے ہیں۔ ان کی پارٹی ہندوستانی عوام مورچہ کے صرف چار ارکان اسمبلی ہیں مگر اکثریت ثابت کرنے کے لیے نتیش کمار کے لیے ان چار ارکان اسمبلی کی بڑی اہمیت ہے۔ مانجھی چاہتے تھے کہ انہیں دو بڑی وزارتیں دی جائیں جبکہ ایک ہی دی گئی۔ ان کے بیٹے سنتوش سمن کو وزیر بنایا گیا ہے۔ مگر بظاہر مانجھی خوش نہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ دو وزارتیں دے دیے جانے سے وہ مطمئن ہوجائیں گے یا کچھ اور بھی وہ سوچ رہے ہیں۔ اگر کچھ اور سوچ رہے ہیں تو پھر یہ طے سا ہے کہ بہار میں کھیلا ہونا ابھی باقی ہے۔ اور اگر یہ ان کے دباؤ بنانے کی سیاست ہے تو پھر نتیش کمار کو زیادہ تشویش نہیں ہوگی۔ فی الوقت چراغ پاسوان نے مانجھی کی ہی حمایت کی ہے۔ جیتن رام مانجھی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’ان کے ارکان اسمبلی کی تعداد بھلے ہی کم ہو لیکن موجودہ صورت حال میں ان کی اہمیت کافی ہے۔‘ چراغ کے مطابق، ’’اتحاد میں انہیں مناسب احترام ضرور ملنا چاہیے۔‘‘ جیتن رام مانجھی کی پارٹی کو دو وزارتیں دے دیے جانے سے ’مناسب احترام‘ دے دیا جائے گا یا اس کے لیے کچھ اور کرنا پڑے گا، یہ فی الوقت کہنا مشکل ہے۔ نتیش کمار ایک منجھے ہوئے سیاستداں ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی بالکل صحیح سیاسی چال چلتے ہیں مگر یہی لگتا ہے کہ اس بار حالات کچھ مختلف ہیں۔
[email protected]
بہار: کیا کھیلا ہونا ابھی باقی ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS