سروج کمار
مائیکرو، اسمال اور میڈیم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای)معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہے جاتے ہیں۔ یعنی معیشت کی مضبوطی کے لیے ایم ایس ایم ای کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ لیکن ہندوستان میں معیشت کی ریڑھ یعنی ایم ایس ایم ای کمزور، تغذیہ کی کمی کا شکار اور نظرانداز کی گئی ہے۔ معیشت پر اس کا اثر واضح طور پر نظر بھی آرہا ہے۔ جب بھی کبھی کسی جھٹکے سے کمزور ریڑھ ہلتی ڈلتی ہے، معیشت نڈھال سی پڑی نظر آتی ہے۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور اب کورونا وبا کے جھٹکے اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن معیشت کے اس کمزور شعبہ کو مضبوط کرنے کے لیے ابھی تک کام کم، باتیں ہی زیادہ ہوئی ہیں۔ کمزور، تغذیہ کی کمی کا شکار اور نظرانداز فہرست کی ایسی صنعتوں کی تعداد ملک میں کوئی6کروڑ 33لاکھ ہے اور بری حالت میں بھی یہ ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً 30فیصد کا تعاون کرتی ہیں۔ ملک کی 45فیصد سے زیادہ افرادی قوت یہاں روزگار پاتی ہے۔ اگر معیشت کے اس شعبہ کو تھوڑا مضبوط کردیا جائے تو ملک کی تصویر بدل سکتی ہے۔
سرکاری ڈیفینیشن میں ایم ایس ایم ای کا تعین سرمایہ کاری کی رقم اور کاروبار کی رقم کی حد سے ہوتا ہے۔ ایک کروڑ تک سرمایہ کاری اور 5کروڑ روپے تک سالانہ کاروبار کرنے والی صنعت مائیکرو کی فہرست میں آتی ہے۔ وہیں 10کروڑ روپے تک سرمایہ کاری کے ساتھ 50کروڑ روپے تک سالانہ کاروبار کرنے والی صنعت کو اسمال کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ جب کہ 50کروڑ روپے تک سرمایہ کاری اور سالانہ ڈھائی سو کروڑ روپے تک کا کاروبار کرنے والی صنعت کو میڈیم درجہ کا سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ڈھائی سو کروڑ روپے کے کاروبار کے بعد کارپوریٹ دنیا کی حد شروع ہوجاتی ہے۔
بازار کے موجودہ حالات میں ایم ایس ایم ای پر بقایا قرض کے این پی اے ہونے کا بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس سال مارچ میں فکی اور انڈین بینک ایسوسی ایشن کی طرف سے بینکروں کے بیچ کیے گئے ایک سروے میں 84فیصد امیدواروں نے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے این پی اے میں اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ وہ بھی تب جب حکومت ایم ایس ایم ای سیکٹر کا جی ڈی پی میں تعاون بڑھا کر 50فیصد کرنا چاہتی ہے۔ اس سیکٹر میں 5کروڑ نئی نوکریاں پیدا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اتنے سارے مسائل والے ایم ایس ایم ای سیکٹر میں کیا یہ ہدف حاصل کرپانا ممکن ہے؟ امید ہے 27جون کو جب ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی ایم ایس ایم ای ڈے منایا جائے گا تو اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جائے گا۔
ایم ایس ایم ای شعبہ کی صنعتیں کئی سارے چیلنجز کا ایک ساتھ سامنا کرتی ہیں۔ ان میں بھی مائیکرو صنعتوں کے چیلنجز زیادہ بڑے ہیں۔ کئی مرتبہ تو مائیکرو انٹرپرائزز کسی ایک صنعت کار کے ذریعہ چلائی جاتی ہیں۔ مزدور سے لے کر منیجر تک کا کردار ایک اکیلا شخص ہی نبھاتا ہے۔ یہ صنعت کار کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی، جدید بازار کی کسٹم پالیسی سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ایسی صنعتیں مالی مسائل، تکنیکی مسائل، ہنرمند مزدوروں کی عدم دستیابی اور مصنوعات کی مراکیٹنگ کے مسائل سے نبردآزما رہتی ہیں۔ ان تمام مسائل کے سبب یہ صنعتیں اس کوالٹی کے پروڈکٹس نہیں بناپاتیں، جس کوالٹی کے پروڈکٹس بڑی صنعتیں بنانے کی اہل ہوتی ہیں۔ مائیکرو انٹرپرائزز کے پروڈکٹس مہنگے بھی ہوتے ہیں۔ سرمایہ کی کمی میں یہ اپنے پروڈکٹس کی بازار میں تشہیر و مارکیٹنگ بھی نہیں کرپاتے۔ خراب کوالٹی، زیادہ قیمت اور پبلسٹی و مارکیٹنگ کی کمی کے سبب مائیکرو انٹرپرائزز کے پروڈکٹس بازار میں ٹک نہیں پاتے۔ ان کے لیے اپنی لاگت نکال پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ خود کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کے بیچ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور کورونا وبا جیسے جھٹکے انہیں توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ملک کے ایم ایس ایم ای شعبہ میں 99.4فیصد (6کروڑ30لاکھ) حصہ مائیکرو انٹرپرائزز کا ہے۔ اسمال انٹرپرائزز 0.52فیصد یعنی 3لاکھ31ہزار اور میڈیم انٹرپرائزز کی حصہ داری محض0.007فیصد یعنی پانچ ہزار ہی ہے۔
آل انڈیا مینوفیکچررس آرگنائزیشن(اے آئی ایم او) کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ سوا سال کے کورونا دور کے ددوران 35فیصد ایم ایس ایم ای کو اپنے کاروبار بند کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ کاروبار بند ہونے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ سے ڈیمانڈ میں کمی آتی ہے اور ڈیمانڈ کم ہونے سے معیشت ٹوٹتی ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 11جون کو بے روزگاری کی شرح 12.35فیصد پر تھی۔ مئی ماہ میں یہ 11.90فیصد تھی۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت ایم ایس ایم ای کے بند ہونے کی بات سے ہی انکار کررہی ہے۔ حکومت مسلسل کہہ رہی ہے کہ ایم ایس ایم ای کے بند ہونے سے متعلق کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔ پھر یہ سوال واجب ہوجاتا ہے کہ کیا حکومت نے اعدادوشمار جمع کرنے کی کوئی کوشش بھی کی؟
ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت ایم ایس ایم ای شعبہ کے لیے کچھ نہیں کررہی۔ ایم ایس ایم ای کو آسان قرض دستیاب کرانے سے لے کر پروڈکٹس کی مارکیٹنگ، ٹیکنالوجی کو فروغ دینے اور اسکل ڈیولپمنٹ میں حکومت مختلف اسکیموں کے تحت مدد کرتی ہے۔ لیکن یہ مدد ناکافی ہی کہی جائے گی۔ مالیاتی سال 2021-22کے بجٹ کو ہی دیکھیں۔ کھادی، گرام ادھیوگ اور کوئیرانڈسٹری کے لیے کل الاٹمنٹ گزشتہ سال کے 1525.94کروڑ روپے سے کم کرکے اس سال 905.04 کروڑ روپے کردیا گیا۔ ٹیکنالوجی سے متعلق اسکیموں کے لیے الاٹمنٹ 683.91کروڑ روپے سے کم کرکے330.31کروڑ روپے کردیا گیا۔ اسی طرح مارکیٹنگ سپورٹ پلان کا الاٹمنٹ گزشتہ سال کے 74.63کروڑ روپے سے کم کرکے اس سال39.96کروڑ روپے کردیا گیا۔ ایم ایس ایم ای شعبہ میں ہنرمند مزدوروں کی کمی ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن کاروباری صلاحیت اور اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے الاٹمنٹ میں معمولی اضافہ کیا گیا اور اسے 556.47کروڑ روپے سے بڑھا کر 570.93کروڑ روپے کیا گیا ہے۔ ہاں، صرف پردھان منتری روزگار سرجن کاریہ کرم(Prime Minister’s Employment Generation Program) کے الاٹمنٹ میں زبردست اضافہ کیا گیا اور اسے دو ہزار800کروڑ روپے سے بڑھا کر ساڑھے 12ہزار کروڑ روپے کردیا گیا۔ اسی ایک اسکیم کے الاٹمنٹ کے سبب 2021-22 کے بجٹ میں ایم ایس ایم ای کا الاٹمنٹ 15,700 کروڑ روپے ہوگیا، جو 2020-21 میں 7,572 کروڑ روپے تھا۔ لیکن جی ڈی پی میں ایک تہائی کا تعاون دینے والے، زرعی شعبہ کے بعد سب سے زیادہ روزگار(تقریباً 12کروڑ) پیدا کرنے والے، مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 33.4فیصد کا تعاون کرنے والے اور ملک کی برآمدات میں 45فیصد کی حصہ داری نبھانے والے شعبہ کے لیے 15,700 کروڑ روپے کا بجٹ الاٹمنٹ اونٹ کے منھ میں زیرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
مالی تنگی اس سیکٹر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت نے ایم ایس ایم ای کو مالی مدد کے لیے گزشتہ سال تین لاکھ کروڑ روپے کی ایک ایمرجنسی قرض گارنٹی اسکیم(ای سی ایل جی ایس) شروع کی تھی۔ اسکیم کی مدت مارچ2021تک تھی۔ اس کے تحت بغیر کسی ضمانت کے قرض لینے کی سہولت تھی۔ حکومت کی اس اسکیم سے ملک کے کل ایم ایس ایم ای میں سے محض تقریباً 14فیصد کو ہی فائدہ مل پایا۔ اس قرض کی رقم کا بھی زیادہ تر استعمال ایم ایس ایم ای یونٹوں نے قرض کی دوبارہ ادائیگی میں ہی کیا۔ حکومت چاہتی تھی کہ ایم ایس ایم ای سیکٹر کی صنعتیں قرض لے کر اپنے کاروبار کو مستحکم کریں تاکہ روزگار پیدا ہو اور معیشت کا پہیہ رفتار پکڑے۔ لیکن بھوکے پیاسے اتنے بڑے سیکٹر کے لیے یہ رقم شبنم کی بوند سے زیادہ نہیں تھی۔ ویسے بھی بازار میں ڈیمانڈ نہیں ہے تو صنعت کار قرض لے کر کیا کریں گے؟ بین الاقوامی فائنانس کارپوریشن(آئی ایف سی) اور انٹیل کیپ کی 2019کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ایم ایس ایم ای سیکٹر کے لیے قرض کی ڈیمانڈ اور سپلائی کے درمیان17.4لاکھ کروڑ روپے کی کمی ہے۔
بازار کے موجودہ حالات میں ایم ایس ایم ای پر بقایا قرض کے این پی اے ہونے کا بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس سال مارچ میں فکی اور انڈین بینک ایسوسی ایشن کی طرف سے بینکروں کے بیچ کیے گئے ایک سروے میں 84فیصد امیدواروں نے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے این پی اے میں اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ وہ بھی تب جب حکومت ایم ایس ایم ای سیکٹر کا جی ڈی پی میں تعاون بڑھا کر 50فیصد کرنا چاہتی ہے۔ اس سیکٹر میں 5کروڑ نئی نوکریاں پیدا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اتنے سارے مسائل والے ایم ایس ایم ای سیکٹر میں کیا یہ ہدف حاصل کرپانا ممکن ہے؟ امید ہے 27جون کو جب ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی ایم ایس ایم ای ڈے منایا جائے گا تو اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جائے گا۔
(بشکریہ: جن ستّا)