بائیڈن -پوتن ملاقات

0

امریکہ کے46ویں صدر کا عہدہ سنبھالنے کے 6مہینے بعد جوبائیڈن نے رواں ہفتہ پہلا غیرملکی دورہ کیا ۔ نیٹو‘ جی سیون اور یورپین رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے بعدان کے اس دورہ کا اختتام جینوا میںہوا جہاں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی تھیں اور خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کہ اپنے اپنے تحفظات کے ساتھ ملنے والے دونوں رہنما ئوں کی ملاقات کہیں نئے تنازع کا سبب نہ بن جائے ۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد بھی امریکہ اور روس کے تعلقات کبھی ہموار نہیں رہے ۔جینوا میں ملاقات سے قبل دونوں ہی رہنما ایک دوسرے کے خلاف تلوار سونتے ہوئے تھے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ملاقات سے عین قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حالیہ برسوں کے دوران امریکہ کے ساتھ روس کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیاتھا کہ انتہائی خراب تعلقات کے باوجود وہ جوبائیڈن کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں،لیکن امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے دورہ کے آغاز میں روس کے خلاف اپنا لہجہ انتہائی سخت رکھاتھا حتیٰ کہ یہ بھی کہہ دیا کہ روس کی ’ نقصان دہ‘ سرگرمیاں جاری رہیں تو اسے ’ مضبوط اور معنی خیز‘ نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
اس پس منظر میں ہونے والی یہ ملاقات صرف ان دونوں ملکوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست کے نقطہ نظر سے بھی کافی اہم تھی تاہم دنیا کواس سے کسی بڑی پیش رفت کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ اس کے باوجود دونوں رہنمائوں کی ملاقات کافی مثبت رہی۔ اس ملاقات کا پہلا مثبت نتیجہ تو یہی نکلا کہ روسی اور امریکی سفیروں کی واشنگٹن اور ماسکو واپسی پراتفاق ہوگیا۔ چند ایک تنازعات کے بعد سے دونوں ملکوں نے اپنے اپنے سفیر واپس بلالئے تھے۔ اس ملاقات کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے ولادیمیر پوتن کے سیاسی مخالفین کو خاموش کرانے بالخصوص روس میں حزب اختلاف کے رہنما آلکسی ناوالنی کے خلاف سخت ترین اقدامات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر جیل میں قید ناوالنی کا قتل ہوگیا تو اس کا نتیجہ انتہائی خوف ناک نکلے گا۔یہ وہ انتہائی ردعمل ہے جو اس ملاقات کو منفی رخ دے سکتی تھی ۔کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کو کبھی بھی سراہا نہیں جاسکتا ہے،لیکن روسی صدر نے تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے امریکہ کی اس دخل اندازی اور اس کے عزائم پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یوکرین کے مشرقی خطہ پر روسی افواج کے اجتماع اور سائبر حملہ کیلئے روس کو ذمہ دار ٹھہرانے کے امریکی رویہ کو بھی پوتن نے مسترد کردیا تاہم یہ ضرور کہا کہ سائبر سیکورٹی اہم مسئلہ ہے اور روس کو امریکہ سے ہونے والے سائبر حملوں کا سامناہے دونوں ممالک کو اس معاملے پربات چیت کرنی چاہئے ۔ لیکن ان عدم اتفاق کے باوجود دونوں لیڈروں کے درمیان چار گھنٹوں تک طویل بات چیت ہوئی اور دونوں ہی لیڈروں نے نیوکلیائی اسلحہ کی حد بندی اور سائبر حملے روکنے پر بھی غور و خوض کیا ۔ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا جس میں دنیا میں اسٹریٹجک استحکام پر بات چیت شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے ۔اس دوران دونوں ہی رہنمائوں نے میڈیا سے جو بات کی اس کی بنیاد پر یہ سمجھاجاسکتا ہے کہ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان مثبت مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ۔پہلے پہل دونوں ہی رہنمائوں کو خود بھی اس ملاقات سے کوئی خا ص امید نہیں تھی لیکن اب برف پگھلنی شروع ہوگئی اور بات چیت کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔روس سے امریکہ کی روایتی نفرت حتیٰ کہ صدر ولادیمیرپوتین کو ’قاتل‘ تک قرار دینے کے باوجود صدر جوبائیڈن کا ان سے ملنے کی اہم وجہ چین بھی سمجھاجارہاہے ۔ دنیابھر میں چین کے بڑھتے تسلط سے امریکہ جزبز ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ روس بھی چین کے ساتھ مل جائے۔اگر ایسا ہوگیا تو دنیا کی دو بڑی طاقتوں کا اتحاد امریکہ کے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گا اس لئے امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کو دور رکھنے کیلئے روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں۔
امریکہ اور روس کے بہتر تعلقات ہندوستان کے حق میں بھی ہیں ۔ ہندوستان سے متعلق چین کے خطرناک عزائم کو لگام دینے کیلئے امریکہ اور روس کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں اس لئے ان دونوں ہی ملکوں کے تعلقات کا بہتر ہونا ہندوستانی نقطہ نظر سے ضروری ہے۔اس طرح دیکھاجائے تو بائیڈن -پوتن ملاقات بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہونے والی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS