بائیڈن اور پوتن کا دورۂ مشرق وسطیٰ: کس کو کیا ملا؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

جولائی 2022 اس اعتبار سے مشرق وسطیٰ کے لیے کافی اہم مہینہ رہا کہ بیسویں صدی میں تقریباً چالیس برسوں تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دنوں کے اہم کھلاڑی یعنی امریکہ اور روس کے صدور نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا۔ مشرق وسطیٰ کو دنیا کے نقشہ پر جو اسٹرٹیجک اہمیت حاصل ہے، اس کے پیش نظر یہ خطہ ہمیشہ سرخیوں میں رہا ہے اور تمام سپرپاورس یہاں قدم جمانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا پر روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کا سایہ پڑ رہا ہے۔ کہیں انرجی اور تیل و گیس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو کہیں غلہ کا بحران پیدا ہو رہا ہے اور ان تمام معاملوں میں یوکرین پر روسی جارحیت کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ جولائی کے نصف میں امریکی صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطیٰ کا جو دورہ کیا تھا اور جس میں اسرائیل، فلسطین، سعودی عرب اور اردن جیسے ممالک شامل کیے گئے، اس میں بھی یوکرین اور روس کے درمیان جاری تنازع اور جنگ کا پہلو واضح تھا۔ اسی طرح تہران میں جب روس، ترکی اور ایران کی اعلیٰ ترین قیادتیں 19 جولائی کو یکجا ہو رہی تھیں، اس میں بھی روس و یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والے عالمی مسائل زیر بحث رہے۔ یہ اور بات ہے کہ تہران میں جو چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، اس کو ملک شام کے مسائل کو حل کرنے اور پرامن طریقہ سے اس قضیہ کو نپٹانے پر زور دیا گیا تھا۔ اگر دونوں صدور کے دورۂ مشرق وسطیٰ کا جائزہ لیا جائے اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آخر ان دوروں سے کیا نتائج سامنے آئے اور مستقبل میں یہ خطہ کس کے ساتھ اپنا گہرا تعلق رکھنا پسند کرے گا تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مقابلہ میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کو اپنے دورۂ مشرق وسطیٰ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔ اگر امریکی میگزین’فارن پالیسی‘ کے تجزیوں کو دھیان میں رکھا جائے تو اس کے مطابق جو بائیڈن کے مقابلہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو مشرق وسطیٰ کے ممالک کی حمایت زیادہ ملی ہے۔ ’فارن پالیسی‘ کا ماننا ہے کہ چونکہ اس خطہ کے ممالک کی دلچسپی اس بات میں زیادہ ہے کہ ایک کثیر الاقطاب یا ملٹی پولر ورلڈ آرڈر قائم ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مشرق وسطیٰ اپنے مفاد کو زیادہ بہتر ڈھنگ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ میگزین کا مزید یہ ماننا ہے کہ امریکی صدر کے دورہ سے ملنے والے کمزور نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطہ کے اہم کھلاڑی خاص طور سے خلیجی ممالک اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات سے دست بردار ہو جائیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے پارٹنرس کے مفادات روس کے ساتھ زیادہ میل کھاتے ہیں۔ یعنی کہ اگر دنیا کے بازار میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے یا ایک کثیر الاقطاب نظام عالم کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کا سیدھا فائدہ اس خطہ کو حاصل ہوگا اور اس سے سمجھوتہ کرنے کے لیے وہ راضی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بائیڈن کے سعودی عرب دورہ کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ محمد بن سلمان کو اس بات کے لیے قائل کرسکیں کہ تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اضافہ کر دے تاکہ یوکرین پر روسی جارحیت کے نتیجہ میں امریکی شرکاء کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کو دور کیا جا سکے مگر اس محاذ پر بھی امریکی صدر کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی کیونکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بس گول مول سی بات کہہ دی اور تیل کی پیداوار میں اضافہ پر ٹھوس ڈھنگ سے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔ اسرائیل اور فلسطین کے معاملہ پر بھی جو بائیڈن نے کوئی امید افزا بات نہیں کی اور ہمیشہ کی طرح ایک ایماندار اور غیر جانبدار ثالثی کا کردار نبھانے سے نہ صرف گریزاں رہے بلکہ اسرائیل و فلسطین کے معاملہ پر جو بائیڈن کی واضح حمایت اسرائیل کے ساتھ رہی۔ کئی برسوں سے اسرائیل-فلسطین مذاکرات کا جو سلسلہ بند ہے، اس کو از سر نو جاری کرنے کے بارے میں بھی مایوس کن بات ہی کہی گئی۔

بائیڈن نے دو ٹوک انداز میں یہ کہہ دیا کہ ایسے کسی مذاکرات کے لیے مناسب وقت نہیں ہے۔ حالانکہ ان کے پاس کئی ایسے مواقع موجود تھے جن کا استعمال کرکے وہ فلسطینیوں کو مثبت پیغام دے سکتے تھے کہ وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر جو بائیڈن کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اعلان کرتے کہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جو پالیسیاں فلسطین کے حوالہ سے اختیار کی تھیں، ان کو ماقبل ٹرمپ عہد کی طرف لوٹا دیتے جس سے مظلوم فلسطینیوں کو کسی قدر تسلی ہوتی کہ شاید جمہوری قدروں کی دہائی دینے والا صدر اپنی بات کو عملی جامہ پہنانے کا بھی حوصلہ رکھتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس معروف فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل معاملہ میں بھی امریکی تحقیق نے اسرائیل کو بری قرار دینے کی مذموم کوشش کی جس کی وجہ سے فلسطینیوں کا غصہ احتجاج بن کر سڑک پر آ گیا۔ اس کے برعکس روسی صدر ولادیمیر پوتن کو اپنے ایران دورہ میں نسبتاً بڑی کامیابی ملی۔
ایران جو پہلے یوکرین پر روسی جارحیت کے معاملہ میں واضح طور پر روس کی حمایت سے دور رہا تھا اور بات چیت کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرنے پر زور دے رہا تھا، اس نے خامنہ ای کی زبانی پر زور طریقہ سے روس کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ ایک قدم بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ نہیں کیا ہوتا تو قرم کا بہانہ بناکر ناٹو آج نہیں تو کل روس پر حملہ آور ہو جاتا۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں شاید ہی کسی ملک نے روس کی حمایت کا اعلان کیا ہو۔ لیکن کیا یوکرین پر روسی حملہ کی حمایت ایران بلا وجہ کر رہا ہے؟ یا اس کے پیچھے بھی کوئی مقصد ہے جس کا حصول ایران کے پیش نظر ہے؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ تیل کے بازار میں روس کی وجہ سے ایران کو نقصان ہوا ہے کیونکہ جب تک روس اپنے تیل کو سستے قیمت پر ہندوستان اور چین کو فروخت نہیں کر رہا تھا تب تک یہ فائدہ صرف ایران اٹھا رہا تھا۔ تو آخر وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ غلہ کا جو بحران پوری دنیا میں پیدا ہوا ہے، اس کا اثر ایران پر بھی پڑ رہا ہے اور لوگ سڑکوں پر نکل کر بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ایران نے حال ہی میں اپنی آنکھوں سے سری لنکا میں وہاں کے عوام کا غصہ اور اس کے نتیجہ میں صدر کا زوال اور ملک سے راہ فرار کا منظر دیکھا ہے۔ اس لیے وہاں کی قیادت نہیں چاہتی کہ ایسے وقت میں جب کہ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بار بار یہ اعلان ہو رہا ہے کہ چند مہینوں میں غذائی بحران عالمی سطح پر شروع ہو جائے گا ایسی صورت میں کوئی جوکھم اٹھائے۔ اب چونکہ روس کے پاس گیہوں بھاری مقدار میں موجود ہے اس لیے اس کے گیہوں سے استفادہ پیش نظر ہے جس کی وجہ سے ایران کے موقف میں واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کو دوسرا فائدہ یہ ہے کہ روس کا تیل ایران کے راستے سے ہوکر ہی ہندوستان اور چین کو بیچا جا رہا ہے کیونکہ اس سے مسافت کم ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے ایران کو بھاری مقدار میں ٹرانزٹ فیس حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ روس کو ایران سے یہ نسخہ بھی سیکھنا تھا کہ برسوں سے امریکی پابندیاں جھیلنے کے باوجود وہ دنیا کی منڈی میں اپنا تیل کیسے فروخت کرتا رہا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ امریکہ کے مقابلہ میں روس زیادہ بہتر تال میل بٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ امریکہ اس خطہ سے باہر چلا جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ امریکہ کے لیے یہ خطہ آج بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، البتہ اس قدر ضرور ہوا ہے کہ امریکہ کے پرانے دوستوں کو اس پر کوئی خاص بھروسہ نہیں رہا۔ کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں موجود اس بے اعتمادی کی فضا کو دور کر پائے گا؟ ابھی اس کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS