کانگریس کی بھارت جوڑو تحریک اور سول سوسائٹی

0

ہندوستان کی سیاست میں ایک ایسی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے جو اس سے پہلے دکھائی نہیں دی تھی۔ آج ہندوستان کو ایک ایسے پل کی ضرورت ہے جو عوامی سطح پر تمام اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کو جوڑ سکے۔ میں نے پچھلے ہفتہ کے اپنے کالم میں اس کا سرسری تذکرہ کیا تھا کہ یہ پل کس قسم کا ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت اور جمہوری اقدار اس بازیافت پر کافی حد تک منحصر ہیں۔
حال ہی میں زمینی سطح پر کام کرنے والی تحریکوں کے کچھ گروپ جو اکثر سیاسی پارٹیوں سے دور رہتے تھے، نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سیاسی مہم سے وابستہ ہوںگے جس کا نام ’بھارت جوڑو یاترا‘ ہے اور جس کو کانگریس نے شروع کیا ہے۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ان گروپوں کو مین اسٹریم کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مربوط کریں اور سیاسی عمل میں مداخلت کریں اور ساتھ ہی ساتھ یہ مداخلت غیرجانبدارانہ ہونی چاہئے۔کسی ایک سیاسی جماعت سے اس تحریک کی وابستگی نہیں ہونی چاہئے اور یہ گروپ نہ ہی سیاسی جماعتوں کی مقابلہ آرائی میں شامل ہوں جوکہ سیاسی جماعتوں میں آپس میں ہوسکتی ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہے کہ اس گروپ کی سرگرمیاں اخبارات کی زینت نہیں بنیں۔ یہ میڈیا رپورٹ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی تھیں کہ راہل گاندھی سول سوسائٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ایک فرضی خبر بھی اخبارات میں آئی جس میں یہ کہا گیا کہ راہل گاندھی نے 2024کے انتخابات میں اپنی ممکنہ شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے اس خبر کو نشر کرنے کے بعد واپس لے لیا۔ بعد میں کچھ اس قسم کی قیاس آرائیاں لگائی جانے لگیں کہ کچھ ’آندولن جیوی‘ کانگریس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ کسی کو فرصت نہیں ملی کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کہ وہ کون سی تنظیمیں تھیں جو کانگریس کے ساتھ شامل ہونے جارہی ہیں اور ان تنظیموں سے اس یاترا کو کس قسم کی حمایت ملے گی۔
فاصلے عبور کرنے کے لئے شروعات
پچھلے سال سے مختلف سیاسی جماعتوں میں رابطہ کے لئے پل بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہاں میں یہ بتا دوں کہ زیادہ تر اس قسم کی میٹنگوںمیں میں شامل رہا ہوں۔ کچھ اہم شخصیات، دانشور اور رضاکاروں نے ستمبر 2021میں ایک ملاقات کی اور اس قسم کے کسی بھی تجربے کا نام رکھنے کی کوشش کی گئی اور ایک نام پر اتفاق ہوا جو تھا ’ہندوستان ایک بہتر متبادل کا حقدار ہے‘۔ اسی طرح کچھ میٹنگیں بنگلورو، کوچی، جے پور، پریاگ راج اور گوہاٹی میں بھی ہوئیں۔ کچھ شرکا نے ایک نئی مہم کا آغاز کیا جس کا نام ’ہم ہندوستانی‘ رکھا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد ایک ایسے وسیع تر اتحادکی تشکیل تھی جوکہ ہندوستان کی جمہوری اقدار کی بازیافت کرے اور جمہوری مزاحمت کو مضبوط بنائے۔ اس قسم کی کئی مہمیں شروع کی گئیں اور اس قسم کی پہلیں ہر روز بڑی اور مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔ اس ماہ میں اس بابت تین اہم مشاورتی میٹنگوں کا انعقاد ہوا۔ ایک میٹنگ 13/14اگست کو ہوئی جس کا نام تھا ’’راشٹریہ نرمان سماگم‘۔ یہ وارانسی میں ہوئی تھی۔ یہ مہم شروع کرنے والے لوگ وہ تھے جو گاندھیائی اداروں سے وابستہ تھے اور وہ جے پی تحریک سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ ان رضاکاروں میں امرناتھ بھائی، رام چندر راہی، پرشانت بھوشن اور آنندکمار تھے۔ اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ وہ ایک ملک گیر اور ہمہ جہت مہم شروع کریںگے جس کا مقصد قومی اتحاد اور جمہوریت کا تحفظ ہوگا۔
اس دوران کانگریس نے بھی اپنی ایک کوشش ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا اعلان کردیا جوکہ کنیاکماری سے لے کر کشمیر تک جائے گی اور تمام شہریوں، تنظیموں، سیاسی جماعتوں سے اپیل کرے گی کہ وہ اس تحریک میں شامل ہوں۔ دگ وجے سنگھ اس بابت کانگریس صدر کی طرف سے ایک مکتوب لے کر آئے جو ممتاز مجاہد آزادی جی جی پاریکھ کو لکھا گیا تھا۔ جی جی پاریکھ سینئر سوشلسٹ لیڈر ہیں۔ کانگریس صدر نے اس مہم میں ان کی حمایت کی درخواست کی تھی۔ اس کے بعد 19؍اگست کو ایک میٹنگ راجدھانی میں ہوئی جس میں دو درجن سے زیادہ عوامی تنظیمیں بشمول نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ (این اے پی ایم) بھی تھی جس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک مہم شروع کرے گی اور اس کا نام ’نفرت چھوڑو، بھارت جوڑو ابھیان‘ ہوگا۔ اس تحریک نے بھی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی حمایت کی۔ ان حمایت کرنے والوں میں میدھاپاٹیکر، جسٹس کولسے پاٹل(ریٹائرڈ)، علی انور، تشار گاندھی اور ڈاکٹر سنیلم شامل تھے۔
کانگریس کی اعلیٰ قیادت اور عوامی تحریک سے وابستہ افراد کے درمیان ایک میٹنگ 22؍اگست کو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہوئی۔ اس میٹنگ کو ان ہی کوشش کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میٹنگ میں 20ریاستوں کے 150 عوامی تحریکوں سے وابستہ مشہور افراد شامل تھے۔ یہ افراد نظریات اورخطہ کی تقسیم سے بالاتر تھے۔ یہ کانکلیو مشہور سماجی کارکن ارونارائے، بیزواڑا ولسن، دیوانورامہادیوا، گنیش دیوی، پی وی راج گوپال، شرد بہار اور میری خود کی پہل کا نتیجہ تھا۔ اس میٹنگ کا بنیادی ایجنڈہ یہ تھا کہ کس طریقے سے عوامی تحریک کو جوڑا جائے اوراس تحریک کو کس طرح ’بھارت جوڑویاتر‘ سے مربوط کیا جائے۔ وسیع تر مذاکرات کے بعددگ وجے سنگھ اور فرینک نے راہل گاندھی سے ملاقات کی۔ اس گروپ نے متفقہ طورپر فیصلہ کیا کہ وہ اس یاترا کا خیرمقدم کریںگے اوراس یاترا کے ساتھ مل کر کام کریںگے۔
یہ لمحہ ہندوستان میں سیاسی تحریک کے تعلق سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔اس میٹنگ کے تمام شرکاء نے یاترا میں شامل ہونے کے لئے دستخط نہیں کئے۔ کچھ نے اس مقصد میں شامل ہونے کے لئے اپنے خود کے طریقے وضع کئے۔ اس میٹنگ میں تمام شرکا نے اپنے اندیشے اور تحفظات آزاد انہ طورپر رکھے کہ وہ کس طریقے سے ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک اصولوں پر مبنی موقف اختیار کریں تاکہ ہندوستان میں نفرت پہ مبنی سیاست کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ان زمینی سطح پر کام کرنے والے گروپوں کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں جوکہ اپنے آپ کو کانگریس سے وابستہ کرلیں۔ یہ لوگ دوسری اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ تال میل کرکے اسی قسم کی شروعات کی حمایت کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ تاکہ ایک ایسی بااثر جمہوری مزاحمت معرض وجود میں آجائے جوکہ جمہوری اداروں پر آئینی اقدار پر ہونے والے حملوں کا دفاع کرسکے۔
غیرسیاسی اور غیرجانبدار
اس شروعات کو ہم ماضی میں کئے گئے اقدام سے ممتاز اور الگ ہٹ کر کے رہ سکتے ہیں جوکہ غیرسیاسی عمل کے زمرے میں آتا تھا۔ 1980کی دہائی میں ہندوستان کا جمہوری نظام ایک ایسا وحشی نظام دکھائی دینے لگا جوکہ سیاست کے جنگل کے اردگرد منڈلا رہا تھا۔ یہ سیاسی جماعتیں نہیں تھیں۔ ان عناصر نے الیکشن نہیں لڑا اور نہ ہی انتخابی عمل میں مداخلت کی اور نہ ہی یہ انسانیت کی خدمت اور فلاحی رضاکار تنظیموں پر بھی مبنی تھا، نہ ہی یہ کوئی پریشر گروپ تھا۔ یہ گروپ سیاسی تھے۔ ان گروپوں نے سیاسی موقف اختیار کیا مگر سیاسی اقتدار سے تامل کیا پھر بھی یہ سیاسی آئیڈیالوجی سے رہنمائی حاصل کر رہے تھے۔ سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرین جیسے رجنی کوٹھاری، ڈی ایل سیٹھ اور ہرش شیٹھی جن کا تعلق سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس) سے تھا۔ انہوں نے عوامی سطح پر کام کرنے والی مزاحمت کی تحریک کو غیرسیاسی جماعتی قرار دیا ہے۔ ان ماہرین کو امید ہے کہ غیرسیاسی تحریک نے ایک منفرد قسم کے نظام کو وضع کیا ہے جوکہ ابھی تک مغربی ممالک میںدکھائی نہیں دیتا ہے۔
آج کے دور میں جمہوری مزاحمت کو ایک نئے انداز سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ایک وضع کردہ اور سودمند نظام وضع کریں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم غیرسیاسی اور سیاسی جماعتوں میں رابطہ پیدا کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کریں۔ آج کے دور میں اپوزیشن پارٹیوں کو پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ چونکہ وہ ایک ایسے سیاسی نظام میں داخل ہونا چاہتی ہیں جن کے پاس نہ تو کیڈر ہے، نہ تنظیم ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ ہے۔ گزشتہ 8 سال میں موجودہ نظام کے خلاف جو بھی مزاحمت نظر آئی ہے وہ پارلیمنٹ سے زیادہ سڑک پر دکھائی دی ہے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ عوامی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں کو پہلے سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔ احتجاج اور نظریات کے خلاف ناگواری جس طرح بڑھ رہی ہے آج کے جمہوری نظام میں صرف اور صرف سیاسی تبدیلی ہی موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ مزاحمت کی سیاست کو جمہوری نظام سے لاتعلق ہوکر نہیں رکھا جاسکتا۔ سیاسی پارٹیاں الیکشن جیت سکتی ہیں۔ تحریکیں گہرائی فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ سیاسی جماعتیں اس قسم کی مزاحمت کو وسیع کرسکتی ہیں۔ یہ تحریکیں ایشوز کو سامنے لاتی ہیں، پارٹیاں ثالثی کرتی ہیں اور اس کوایک ایجنڈے کی شکل دیتی ہیں۔ تحریکیں ایک خام توانائی مہیا کراتی ہیں اور پارٹیاں ان کو استعمال کرتی ہیں۔ بہتر نتائج ممکن بناتی ہیں، لہٰذا ہمیں ایک ایسے وسیلہ کی تلاش رہتی ہے جوکہ کلی طورپر سیاسی جماعتوں پر مبنی نہ ہو اور نہ ہی کچھ تنظیموں کی تحریک کو یہ تحریک پالیسیاں وضع کرنے کے عمل میں میں شامل ہوں،نظریہ بنائیں مگر تھنک ٹینک کی حیثیت سے نہیں۔ یہ مہم تو شروع کریں مگر محض ایک مہم جو تنظیم بن کر نہ رہ جائے۔ سیاست میں مداخلت کرے ،بشمول 2024کے لوک سبھا انتخابات میں مگر سیاسی جماعت بن کر نہیں۔
آج ہم ایک غیرمعمولی چیلنج کا ہم سامنا کررہے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیرمعمولی قسم کے طریق کار کو اختیار کریں۔ ہمیں کسی نئے وسیلے کی ہی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک ایسے وسیلے کی ضرورت ہے جو خاص مقاصد کے لئے وضع کیا گیا ہو۔ ایک ایسے وسیلے کی ضرورت ہے جو تاریخ کے اس خاص لمحے کے لئے مخصوص ہو۔ تحریک محض تحریک بن کر نہ رہ جائے۔ یہی وہ پل ہوسکتا ہے جو ہمارے مستقبل کو بنا سکتا ہے۔
(مضمون نگار سوراج انڈیا کے بنیادگزار اور مصنف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS