شاہد زبیری
سنگھ پریوار کے موہن بھاگوت کی تقاریر اور بیانات پر جن کی نظر رہتی ہے، وہ جانتے ہیں کہ موہن بھاگوت جب بولتے ہیں تو ایک سے زائد مطلب نکلتے ہیں، وہ شاید اس پر عمل کرتے ہیں کہ ’بات وہ کہیے جس کے سو پہلو ہوں-کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے‘۔ ان کا ہر بیان اپنے پہلے بیان کی ضدہوتا ہے، کبھی وہ تمام ہندوستانیوں کو ’ہندو‘بتا تے ہیں، ان سب کا ڈی این اے ایک ہونے کا انکشاف کرتے ہیں،جس سے صاف ہے کہ سنگھ کو ہندوستان کی رنگا نگی پسند نہیں اور وہ ہندوستان کے تمام فرقوں کی قدیم اور فطری شناخت، مذہبی،لسانی اور علاقائی شناخت کو تسلیم نہیں کرتا اور تمام ہندوستانیوں کے لیے ایک خاص شناخت ’ہندو‘اور یک رنگی پر اصرار کرتا ہے۔اب سنگھ کے سر سنچالک موہن بھاگوت نے ایک اور شگوفہ چھوڑا ہے کہ سنگھ نہ صرف ہندوستان کے تمام فرقوں کو ڈسپلن کے تحت لانے کیلئے ’ شدھ‘ کرنا چا ہتا ہے بلکہ سنگھ پوری دنیا کو آریہ بنا نا چا ہتا ہے اور آرین کلچر کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ آزادی سے پہلے ہندو مہاسبھا اور آریہ سماج نے مسلمانوں کی ’شدھی‘کی تحریک چلائی تھی جس کا مقصد ان کے مطابق جن مسلمانوں کے آباء واجداد کومسلم حکمرانوںنے اپنی طاقت کے آگے سرنگوں کردیا تھا اور ان کا مذہب تبدیل کرا دیا تھا، ان کی اولادوں کو واپس ہندو دھرم میں لا نا تھا۔ اس وقت کے علماء کے ساتھ مہاسبھائیوں اور آریہ سماجیوں سے مناظرے بھی ہوئے تھے، آج اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی اور سنگھ اسی کو ’گھر واپسی‘کہتے ہیں۔فرقوں کو ’شدھ‘ کیے جانے کی جو بات موہن بھاگوت نے کہی ہے، اس کا مطلب ’شدھی کرن‘ہی ہے، سنگھ اس میں کتنا کامیاب ہوتا ہے یہ تو وقت بتائے گا۔
موہن بھاگوت نے ’شدھ‘ کیے جانے کو لے کر جو گل افشانیٔ گفتار گزشتہ 24نومبر کو تھائی لینڈ کے بنکاک کی تیسری ورلڈ ہندو کانگریس میں کی ہے۔اسی کے ساتھ انہوں نے آرین کلچر کی بحث بھی چھیڑ دی ہے، ان کے نزدیک آرین ایک کلچر ہے، اس لیے سنگھ سبھی کو آرین یعنی ایک سنسکرتی، ایک کلچر میں دنیا کو رنگنے کی خواہش رکھتا ہے، مطلب یہ کہ وہ اپنے ’ہندو کلچر‘کے رنگ میں دنیا کو رنگنا چا ہتا ہے، سنگھ کوئی بھی خواہش رکھنے اور اس کو روبہ عمل لانے کیلئے آزاد ہے۔ سنگھ اپنے قیام کے پہلے دن سے اسی نہج پر کام کرتا آرہا ہے اور یہ اس کی خوش نصیبی ہے کہ دنیا میں نہ سہی کم ازکم ہندوستان میںاس کی خواہش مودی سرکار میں برگ و بار لارہی ہے، اسی لیے اب اس خواہش کو پر لگ گئے ہیں، وہ اب پوری دنیا کو آرین کلچر میں رنگنے کی باتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے بنکاک کی اپنی تقریر میں ہندوستان کے تناظر میں کہا کہ ہم مذہب کی جیت پر یقین رکھتے ہیں، ہمارا مذہب اسی پر قائم ہے یعنی ہندو مذہب جو دھرم کے اصولوں پر مبنی ہے اس کے نتیجہ میں دھرم ان کیلئے فرض بن جاتا ہے لیکن موہن بھاگوت نے حسبِ عادت اور سنگھ کی پالیسی کے تحت انگریزوں کے ساتھ مسلمانوں کو بھی نہیں بخشا اور کہا کہ ہندوستان نے 250سال تک( انگریزوں ) کی دھن وجے دیکھی اسورو وجے یعنی دوسرے فرقوں کیلئے جارحیت کا احساس، ایک ہی سانس میں انہوں نے مسلم حکمرانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برسہا برس حکومت کی جس سے ہماری سر زمین یعنی ہندوستان پر تباہی مچ گئی تھی۔ان کی تقریر کے اس حصہ کی روشنی میں اگر دیکھیں کہ ڈسپلن کے تحت تمام فرقوں کو ’شدھ‘کرنے کا کیا مطلب ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ سنگھ تمام فرقوں بالخصوص مسلم فرقہ کو ’شدھ‘ یا یوں کہیے کہ ان کا شدھی کرن کرنا یا گھر واپسی چاہتا ہے ؟ یہ سنگھ کا پرا نا خواب ہے وہ صرف مسلمانوں کو نہیں دوسری مذہبی اور لسانی اقلیتوں و فرقوں کو اپنے من گھڑت ’ہندو کلچر‘میںضم کرنا یا رنگنا چاہتا ہے جبکہ ہندو دھرم اپنی فطرت کے لحاظ سے مذہبی رواداری میں یقین رکھتا ہے ، ’جیو اور جینے دو‘یہ ہندو دھرم کا بنیادی فلسفہ ہے۔ سنگھ پریوار ایسا نہیں مانتا، اسی لیے سنگھ کے دوسرے گرو، گرو گولوالکر نے اپنی کتاب ’بنچ آف تھاٹ‘، جس کا اب ہندی ترجمہ بھی دستیاب ہے، میں ملک کے تین بڑے دشمن بتا ئے ہیں جن میں مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ شامل ہیں۔ سنگھ آج بھی ان تینوں کو اپنی راہ کا کانٹا مانتا ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے اس نے الگ الگ طریقے اپنا ئے ہیں، مسلمانوں پر اس کی خاص نظر ہے۔ہر چند کہ اس نے مسلم راشٹریہ منچ بنا یا ہے لیکن ہماری معلومات کے مطابق بی جے پی یا مسلم راشٹریہ منچ یا بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سنگھ کی نظر میں کسی بھی ’دیش بھکت مسلمان‘ کیلئے سنگھ کی روز انہ لگنے والی شاکھا کے دروازے آج بھی بند ہیں۔ سنگھ کسی غیر برہمن کو سر سنچالک نہیں بناتا، خواہ وہ اونچی ذات کا ہندو ہی کیوں نہ ہو، صرف رجّو بھیّا کے استثنیٰ کے ساتھ جو غیر برہمن تھے۔سنگھ ہندو دھرم میں ورن سسٹم پر یقین رکھتا ہے اور اس کی مثال ہاتھ کی پانچ انگلیوں سے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سب انگلیاں ایک ہی ہاتھ کا حصہ ہیںاور ہر انگلی الگ اپنا کام کرتی ہے۔ اسی طرح ہندو دھرم میں اس کے نزدیک برہمن سب سے اعلیٰ اور اونچا مقام رکھتا ہے،اس کے بعد راجپوت پھر ویشیہ یا بنیہ اور چوتھا مقام شودر یعنی دلت کا ہے، جس کا کام ہی باقی تین طبقوں کی خدمت بجا لا نا ہے، ایسا نظریہ رکھنے والا سنگھ ہندوستان کے تمام فرقوں کو آخر کس طرح سے ’شدھ‘ کرنا چاہتا ہے؟ جبکہ اسے اپنا نظریہ ’شدھ‘ کرنا چاہیے جو مذہب کی بنیاد پر ملک کے دوسرے فرقوں کے ساتھ خاص طور پر مسلمان اور عیسائی اقلیتوں کے ساتھ امتیاز روا رکھتا ہے اور ان کو قابو میں کرنے کیلئے نت نئے طریقہ ڈھونڈتا رہتا ہے، ان کی حبّ الوطنی کو مشکوک بنا نے، ان کو ملک دشمن ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا۔ آج اس کے سر سنچالک کو انگریزوں کے مظالم کی یاد آئی ہے، جب ملک کی آزادی کیلئے تمام مذہبی فرقے متحد ہو کر قربانیاں دے رہے تھے اور سر دھڑ کی بازی لگا ئے ہوئے تھے؟ سنگھ پریوار اس وقت کہاں تھا اور کس کی صف میں شامل تھا۔سنگھ ملک کے سیکو لر آئین اور ترنگے جھنڈے کی مخالفت کر چکا ہے، اس کے انگریزی ترجمان آرگنائزر کے صفحات اس کے گواہ ہیں، سنگھ اس داغ کو آج تک دھو نہیں پایا۔ملک کی آزادی کے بعد سنگھ نے ہمیشہ مذہب کے نام پر تقسیم کرنے اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے، وہ جب دھرم اور مذہب کا نام لیتا ہے تو اس سے اس کی مراد اس کا اپنا من گھڑت ’ہندو مذہب‘ہوتا ہے۔ اس نے ہندو مذہب کو بھی سیاست کا چولہ پہنانے کا ’ہندوتو‘کا سیاسی مذہبی نظریہ ساور کر سے لیا ہے جو ہندو مہاسبھا کے صدر تھے۔ اب اسی سنگھ کے سر سنچالک ورلڈ ہندو کانگریس میں تمام فرقوں کو ’شدھ‘کرنا چاہتے ہیں اور ورلڈ ہندو کانگریس میں انہوں نے تمام فرقوں کو ’شدھ‘ کیے جانے کا خودساختہ نظر یہ پیش کیا ہے اور اس نظریہ کو پوری دنیا میں پھیلانے اور دنیا کوآرین کلچر میں رنگنے کی بات کہی ہے لیکن بھولے سے غزہ میں 15ہزار انسانوں کے قتلِ عام پر ایک لفظ نہیں کہا، نہ اس قتلِ عام کی مذمّت یا جنگ بندی کی بات کی جبکہ دنیا بھر میں اس قتلِ عام کیخلاف لوگ سڑکوں پر ہیں اور جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ورلڈ ہندو کانگریس کی جو خبریں سامنے آئی ہیں، اس میں ایسا کچھ نہیں حتیٰ کہ جنگ بندی کا مطالبہ تک نہیں کیا گیا۔ بنکاک میں ہونے والی اس سہ روزہ تیسری ورلڈ کانگریس کا تھیم ’جیسیہ آیتنم دھرم‘ رکھا گیا جس کے معنی ’دھرم‘ فتح کی بنیاد ہے۔ورلڈ ہندو کانگریس میں دنیا کے کئی ممالک میں ہندوئوں کے ساتھ ہو نے والے امتیازی سلوک اور ہونے والے مظالم سے نمٹنے کیلئے کیا طریقے اختیار کیے جائیں اور ہندو مذہب کے ماننے والوں کی کامیابی کیسے ہو، اس کانگریس کا خاص ایجنڈا تھا۔
[email protected]