زین شمسی
ہم علیگ کو دیکھ کر بڑے ہوئے۔ان دنوں میرے گائوں میں تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہوا کرتا تھا۔ میٹرک کے بعد بیشتر طلبا علی گڑھ کے لیے کوچ کر جاتے اور عید و بقرعید یا محرم میں خراماں خراماں سب لوگوں کی گھرواپسی ہوتی۔ جب وہ جاتے تھے تو پائجامہ والے ہوتے تھے اور جب آتے تھے تو شیروانی والے ہوجاتے تھے۔ ہم لوگ انہیں دیکھ کر بہت متاثر ہوتے تھے اور ان سے کہانیاں اور قصے سننے کے لیے انہیں گھیر لیا کرتے تھے۔ ان کی زبان میں روانی آجاتی تھی اور اردو کے الفاظ ان کی گفتگو کا حصہ ہوتے تھے۔ روٹیاں، بوٹیاں، جدوجہد، کشمکش، تذبذب، سلسلہ وار، مثلاً بالترتیب، جیسے الفاظ سن کر ہمیں اپنے دیسی ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ ان لوگوں کی سرگرمیاں کافی معلوماتی ہواکرتی تھیں اور وہ گائوں میں ایک تعلیمی تہذیب کا ماحول بنانے کی جستجو کرتے تھے، جس میں تعلیم کا موضوع سب سے اہم ہوتا تھا۔ انہی سب لوگوں میںایک ولی صاحب تھے، ان کی اردو دانی کے سب قائل ہوگئے تھے۔ لائبریری کی اہمیت پر ان کی گفتگو میں ایک دن میں نے ان سے کسی کا شعر سنا جو کچھ یوں تھا:
ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں میں ورق ہوگا کفن اپنا
یہ شعر انہوں نے کتابوں کی اہمیت و افادیت پر اپنی پرمغز تقریرمیں چسپاں کیا تھا۔ آج اس شعر کی یاد کچھ یوں آئی کہ جب عالمی کتاب میلہ میں چہل قدمی یا یوں کہیں کہ مٹر گشتی کرتے ہوئے قارئین کی طویل قطار سے نبر دآزما ہونا پڑا۔ عالمی کتاب میلہ ہندوستان کا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے، اس میلہ میں دنیا بھر کے پبلشرز شرکت کرتے ہیں اور قارئین کواپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کتابیں حاصل کرنے میں آسانیاں ہوتی ہیں۔بچوں کی کتابیں اور نئی تکنالوجی سے مزین ای بکس وغیرہ بچوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے والدین کو بھی اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ اہم ایشوز پر مکالمے، مناظرے اور سمینار اور ثقافتی پروگراموں کا بھی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ موضوعات چونکہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے اس کے سننے والے اس بات کا احساس لے کر وہاں سے اٹھتے ہیں کہ آج انہوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ چونکہ کووڈ کی وجہ سے یہ میلہ گزشتہ سال منعقد نہیں ہوسکا تھا، اس لیے اس مرتبہ قارئین نے اس میلہ کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کا افتتاح وزیر تعلیم کو کرنا تھا، لیکن کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اتنے مصروف تھے کہ تعلیمی ماحول کو اپنا وقت نہیں دے سکے۔ دراصل تعلیم جب کسی کی ترجیح ہی نہ ہو تو پھر انہیں قصوروار کیوں ٹھہرایا جائے۔ خیر سیاست کی بات اہل سیاست جانیں، باقی پڑھنے پڑھانے والے لوگ تو بس وہی جانتے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں۔
جہاں ہم سب اس مایوسی میں مبتلا ہیں کہ اب نئی نسل میں ذوق مطالعہ کا فقدان ہے، وہیں یہ کتاب میلہ امید کی وہ شمع روشن کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ نہیں! اب بھی قارئین موجود ہیں جو کتابوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کا اہم جزو تسلیم کرتے ہیں۔نئی تکنالوجی کے ذریعہ وہاٹس ایپ یونیورسٹی کی تعمیر نے طلبا کو اصل جانکاریوں سے محروم رکھنے کے لیے اپنی قوت صرف کر دی ہے،اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب طلبا رانا پرتاپ سے اکبر کو ہارتے ہوئے دیکھتے ہیں اور خلجی کو میدان جنگ چھوڑتے ہوئے پڑھتے ہیں تو انہیں حیرانی ضرور ہوتی ہے اور تب انہیں کتابوں کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے، کیونکہ جو لوگ تاریخ کو مسخ کر کے اپنی سیاست کر رہے ہیں، انہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ طلبا مقابلہ جاتی امتحانات میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ناکام ہونے والے ہیں۔ اسی لیے یہ کتابیں ہی ہیں جو انہیں اصل معلومات سے آگاہ کرتی ہیں، لیکن جب کتابیں ہی غلط اطلاعات فراہم کرنے لگیں تو۔۔۔
کتاب میلہ میں ایک اسٹال پر نظر پڑی۔ نئی ہندی پبلی کیشن۔یہ کیا ہے بھائی!سوچتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ الٹ پلٹ کر دیکھا تو بیشتر کتابیں اردو مواد سے بھری ہوئی تھیں اور دیوناگری اسکرپٹ میں لکھی ہوئی تھیں۔ گویا مواد اردو کا، زبان اردو کی اور رسم الخط دیوناگری کا۔ بس یہ ہوگئی نئی ہندی۔غور کیا تو احساس ہوا کہ ادب یا ساہتیہ میں جتنا مواد اردو میں موجود ہے وہ کہیں نہیں ہے، مطلب ہر طرح کی کہانیاں اور غزلیں و نظمیں، اردو نے تمام موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے، مگر اردو رسم الخط کو سکھانے اور بتانے میں ہم اردو والے ناکام ہوگئے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نے بھی فروغ زبان سے زیادہ فروغ ادب پر دھیان مرکوز کیا۔ ریختہ کی مقبولیت بھی اس لیے مستحکم ہوگئی کہ اس نے بھی اردو مواد کو دیو ناگری میں منتقل کر دیا۔چونکہ پرائمری سطح سے ہی اردو درسی نظام کوکمزور کر دیا گیا اور اہل اردو اس بنیا د کو بھی قائم رکھنے میں ناکام ہوئے، اس لیے اب اردوکو مجبوراً اپنا چہرہ بدلنا پڑ رہا ہے اور وہ دیوناگری کی گود میں کھیل رہی ہے۔ اردو نہیں مررہی ہے بلکہ اردو رسم الخط مر رہا ہے۔
بات اردو کی ہورہی ہے تو کتاب میلہ میں اردو کے اسٹال بھی اردو والوں کی ضروریات پوری کر تے نظر آرہے ہیں۔ چونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی رنجشیں اتنی زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ ثقافتی و ادبی مراسم پراس کا اثر پڑنا لازم ہے۔ اسی لیے اس کتاب میلہ میں پاکستان کے کسی پبلشر کا نظر نہ آناحیرت ا نگیز نہیں ہے، مگر اردو کے طلبا کو اس کا نقصان اس طرح اٹھانا پڑ رہا ہے کہ وہاں کی کچھ کتابیں بے حد کارآمد ہوتی ہیں اور اس سے استفادہ لازمی ہوتا ہے۔ نیشنل بک ٹرسٹ کے اسٹال پر سب سے زیادہ بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ این بی ٹی ہندوستان کی تقریباً تمام زبانوں میں کتابیں شائع کرتا ہے اور اس کے موضوعات کثیرالجہت ہوتے ہیں۔
سیاست کا اثر تعلیمی شعبہ کو بھی اپنی گرفت میں لے چکا ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کوئی بھی پروگرام سنسکرت شلوکوں سے ہونا اب عام بات ہو گئی ہے۔یہاں تک کہ کلچرل پروگراموں میں بھی دھارمک حوالے ملنے لگے ہیں۔ تھیم پویلین میں نہرو کے ساتھ ساورکر بھی نظر آتے ہیں۔ پٹیل اور آزاد کے ساتھ دین دیال اپادھیائے کو بھی ہائی لائٹ کرنا پڑا ہے۔ یووا اسکیم کے تحت لکھنے والے نوجوان مصنّفین نئی سوچ کے ساتھ موضوعات طے کر رہے ہیں۔ مفت بائبل تقسیم کرنے والے اسٹال پر جے شری رام کا نعرہ لگنے والی خبر ٹائمس آف انڈیا میںبھی آئی ہے۔ تعلیمی میدان میں اس قدر تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ یہ ساری با تیں بہت معمولی لگتی ہیں، لیکن ان معمولی باتوں کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے جو نئی نسل کو غیر معلوماتی دنیا میں لے کر جانے والا ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کا شکرگزار ہونا چاہیے جو آج بھی کتابوں کے اوراق کو اپنا کفن تسلیم کرتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]