پاکستان کی مدد کرنے سے پہلے سوچے ہندوستان

0

آر کے سنہا

پاکستان میں ان دنوں زبردست ہنگامہ برپا ہے۔ مہنگائی کے سبب عام پاکستانی دانے-دانے کو محتاج ہوگیا ہے۔ بے روزگاری، انارکی اور کٹھ ملّوں کی کرتوتوں نے پاکستان کو تباہ کردیا ہے۔ یہ صورت حال افسوسناک اور بدبختانہ ہے۔ اب ہمارے یہاں کے کچھ لبرل یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی مدد کرے۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ(را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کہہ رہے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اس سال کے آخر میں کسی وقت پاکستان کی طرف امن کا ہاتھ بڑھائیں گے اور گزشتہ چند ماہ سے سیاسی اور معاشی بحران سے نبردآزما پڑوسی ملک کی مدد کریں گے۔
اب ان عظیم لوگوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ جو ملک ہندوستان پر 1948،1965،1971اور پھر کارگل میں ہندوستان پر حملہ کرچکا ہو، اس کے تعلق سے اتنا لبرل رویہ اپنانے کا کیا مطلب ہے؟اسی پاکستان کی طرف سے ممبئی میں 2008میں شدید دہشت گرانہ حملہ ہوا۔ اس کے بعد ممبئی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ 26نومبر2008کو پاکستان کی دہشت گردانہ تنظیم لشکر طیبہ کے 10دہشت گردسمندر کے راستہ سے ممبئی میں داخل ہوئے اور ممبئی میں کئی مقامات پر اچانک حملہ کردیا۔28نومبر تک تاج ہوٹل کو چھوڑ کر سبھی حملہ شدہ مقامات کو سیکورٹی فورسز نے اپنی کسٹڈی میں لے لیا تھا۔ اگلے دن این ایس جی کمانڈو ہوٹل میں داخل ہوئے اور دہشت گردوں کو مار گرایا۔ لیکن اس دہشت گردانہ حملے میں سیکڑوں لوگوں کی جانیں گئیں اور ہزاروں کروڑ روپے کی املاک تباہ ہوگئی۔ اس کے باوجود پاکستان میں اس حملہ کے ماسٹرمائنڈ کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ انہیں حکومت پاکستان اور اس کی چالاک فوج کا تحفظ حاصل ہے۔ اگر کوئی سوچ رہا ہے کہ ممبئی حملوں کے بعد سب کچھ پرامن ہوگیا تھا، تو وہ پٹھان کوٹ اور پھر اُڑی کے واقعات کو یاد کرلیں۔ پاکستان کی سرپرستی میں سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں نے ہندوستانی فوج کے پٹھان کوٹ اور اُری کے ٹھکانوں پر منصوبہ بند حملے کیے۔
اگرچہ ہمارے یہاں سے پاکستان کی مدد کرنے کا مطالبہ ہورہا ہے لیکن کیا پاکستان نے ہندوستان سے کسی طرح کی کوئی گزارش کی ہے؟ اب تک تو نہیں۔ وہاں کے یوٹیوب چینلوں کو دیکھ لیں۔ سب ہندوستان اور ہندوؤں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے مل جائیں گے۔ اب بھی وہاں پر ہندوستان مخالف طاقتیں حاوی ہیں۔ پاکستان کے خون میں بھارت اور ہندو مخالفت ہے۔ پاکستانی فوج کبھی ہندوستان کے ساتھ دوستی نہیں کرنا چاہتی۔ وہاں کی فوج پر کسی کا زور نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کا بھی نہیں آپ پاکستان آرمی کے ماضی کے صفحات کو کنگھال لیں۔ پتا چل جائے گا کہ وہ کس حد تک ہندوستان مخالف رہی ہے۔ پاکستانی فوج پر پنجابیوں کی بالادستی واضح ہے۔ یہ ہندوستان مخالف ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کے حصہ والے پنجاب میں اسلامی کٹرپن سب سے زیادہ ہے۔ وہاں پر ہر انسان اپنے کو دوسرے سے بڑا کٹرمسلمان ثابت کرنے کی فراق میں لگارہتا ہے۔ اس تناظر میں یہ توقع کرنا غیر دانشمندانہ ہو گا کہ پاکستان کی طرف سے ہندوستان سے بحران کے اس وقت میں کسی طرح کا کوئی مطالبہ کیا جائے گا۔ آخر ہم کیوں بلاوجہ لبرل بنے رہتے ہیں؟ کس نے ہم سے لبرل ہونے کے لیے کہا ہے؟ ہم تو پاکستانی سنگر عدنان سمیع کو پدم شری ایوارڈ تک سے نوازتے ہیں۔ سمیع بہترین گلوکار ہیں۔ لیکن ان کا اتنا سا ہی تعارف نہیں ہے۔ وہ دراصل بیٹے ہیں ایک اس پاکستانی ایئرفورس کے فائٹرپائلٹ کے، جس نے ہندوستان پر 1965کی جنگ میں ہندوستان کے مختلف علاقوں پر بم برسائے تھے۔ ان کا نام تھا فلائٹ لیفٹیننٹ ارشد سمیع خان۔ انہیں پاکستان آج بھی اپنا سب سے جانباز فائٹر پائلٹ مانتا ہے۔ ان کا ذکر پاکستان ایئرفورس کی ویب سائٹ میں بھی کیا گیا ہے۔ ان کی مبینہ بہادری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’فلائٹ لیفٹیننٹ سمیع خان نے ہندوستان کے خلاف 1965کی جنگ میں دشمن(ہندوستان) کا ایک لڑاکا طیارہ، 15ٹینکوں اور 12گاڑیوں کو تباہ کیا۔یہ میدان جنگ میں نامساعد حالات کے باوجود دشمن کی فوج کا بہادری سے مقابلہ کرتے رہے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ ارشد سمیع کو ان کی بہادری کے لیے ستارئہ جرأت سے نوازا جاتا ہے۔ بیشک یہ تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ وہ ایئرفورس سے ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان کے ڈنمارک اور ناروے میں سفیر بھی رہے۔ انہیں اپنے وطن میں جتنی بھی عزت ملی، اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ان کی کتاب کا اجرا 28فروری 2008کو دہلی میں ہوا۔ اس کتاب کے لانچ کے کچھ دنوں کے بعد ایک دن خبر آئی کہ ارشد سمیع خان کا ممبئی کے کوکیلابین امبانی اسپتال میں 2009میں انتقال ہوگیا۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں علاج ہوا۔ اس کے بعد عدنان سمیع اپنے والد کو علاج کے لیے ممبئی لے آئے۔ تب یہ بات کافی دنوں تک ذہن کے کسی کونے میں چلتی رہی کہ کیا ہمارا دل اتنا بڑا ہے کہ ہم اسے بھی اپنا مہمان بنانے-ماننے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، جس نے ہمارے خلاف جنگ لڑی ہو۔ کیا 1971کی جنگ کے ہندوستانی ہیرو سیم مان کیشاہ کو پاکستان میں اپنی کتاب کے لانچ کرنے کا کبھی موقع ملتا؟ لبرل افراد کو ذرا سوچنا چاہیے؟
خیر،اب ہندوستان میں پاکستان کی غیر مشروط مدد کرنے والے سامنے آرہے ہیں۔ وہ بھول رہے ہیں یا بھولنا چاہتے ہیں کہ پڑوسی ملک نے ہمارے ساتھ کبھی ہمسایہ کا فرض نہیں نبھایا ہے۔اس نے صرف ہندوستان کا نقصان ہی چاہا ہے۔ اس طرح کے ملک کی ہم مدد کس لیے کریں اور کیوں کریں۔ آخر ہماری کوئی عزت نفس نہیں ہے کیا؟ جن میدان جنگ میں بہادر فوجیوں نے پاکستان کے ساتھ ہوئی جنگ میں اپنی جانیں قربان کیں ان کے ساتھ ہم ناانصافی نہیں کریں گے پاکستان کی مدد کرکے۔ پھر پاکستان ہم سے مدد کی کہاں التجا کررہا ہے۔ اس کے شاید ہی کسی لیڈر نے ہندوستان سے دوستی یا مدد کی بات کی ہو۔ کیا ان حالات میں ہم ’دان ویر‘بن جائیں؟ ہندوستان کو اپنے سافٹ نیشن کی شبیہ سے باہر نکلنا ہوگا۔ کوئی بھی ملک تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھے۔ یہ ڈپلومیسی کا پہلا اصول ہے۔ جیسے کو تیسا۔ اینٹ کا جواب پتھر!
(مصنف سینئر ایڈیٹر، کالم نگار اور سابق رکن پارلیمنٹ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS