محمد حنیف خان
ہر ملک کا اپنا ایک قانون ہوتا ہے جس کی روشنی میں ملک تنظیم و ترتیب کے ساتھ ترقیات کی منزلیں طے کرتا ہے۔ ہندوستان کا بھی اپنا آئین ہے،جس میں ہر فرد اور طبقے کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ملک کی آزادی کے بعد یہ قانون وضع کیا گیا تاکہ آزادی کے ساتھ ہم اپنے فیصلے خود کرسکیں۔ملک میں ایک ٹولہ ابتدا سے ہی ایسا رہا ہے جس نے ہندوستانی جمہوریت کے علائم پرمکمل یقین و اعتماد کا اظہار نہیں کیا، وہ کون سا ٹولہ ہے یہ بتانے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کہ وقتاً فوقتاً بلی تھیلے سے باہر آتی رہی ہے۔اس ٹولے کے مکمل عدم یقین اور عدم اعتماد کا بڑا سبب یہ رہا ہے کہ آزادی کے بعد وہ جن خطوط پر ملک کو لے جانا چاہتا تھا اس میں اسے کامیابی نہیں ملی تھی،لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ اس نے اپنی اسٹریٹجی میں تبدیلی کی اور آج حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ اسی ٹولے کی جیب میں ہمہ وقت رہتا ہے،وہ جسے چاہتا ہے یہ سرٹیفکیٹ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے چھین لیتا ہے۔بڑی بات یہ ہے کہ اس پورے ٹولے میں اوپر سے نیچے تک ایسے ہی افراد ہیں جو اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ اس وقت ان سے بڑا کوئی محب وطن نہیں ہے۔لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کبھی کبھار ایسی باتیں بھی سامنے آجاتی ہیں جن سے واضح ہونے لگتا ہے کہ اس ٹولے کا چولا وقتی ہے۔
چند دنوں قبل وزیراعظم کی مالیاتی مشاورتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر وویک دیب رائے نے ایک انگریزی اخبار میں مضمون ’’دیئر از اے کیس فار وی دی پیوپل ٹو انبریس اے نیو کانسٹی ٹیوشن‘‘ کے عنوان سے لکھا جس میں انہوں نے ایک نئے ’’آئین ‘‘ کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے کیا کہ ہمارا موجودہ آئین نوآبادیاتی وراثت کا مظہر ہے۔یعنی یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے ہندوستان کے نو آبادیاتی ملک ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔اس لیے ہمیں اس آئین کی جگہ دوسرا آئین وضع کرکے اسے نافذ کرنا چاہیے۔جس طرح 2047کے بہت سے منصوبے ہیں، اسی طرح اس کو بھی انہوں نے اسی سے جوڑ دیا ہے لیکن اصل بات یہ نہیں ہے۔کیونکہ جو قانون وضع کیا گیا تھا وہ دنیا بھر کے قوانین کو مد نظر رکھ کر وضع کیا گیا تھا،جس میں وقتاً فوقتاً ترامیم بھی ہوتی رہی ہیں اور کسی بھی ترقی پذیر ملک کی یہ علامت ہے کہ اس کے آئین میں لچک ہونی چاہیے جو ہمارے آئین میں موجود ہے۔اس کے باوجود اگر وہ نئے آئین کا مطالبہ کررہے ہیں تو کچھ ایسا ضرور ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔حالانکہ اس مضمون سے اس وقت یہ پردہ بھی ہٹ جاتا ہے جب وہ لکھتے ہیںکہ ’’یہ پوچھنا چاہیے کہ آئین کے ابتدائیہ میں سماج وادی، سیکولرازم، جمہوری، عدل و انصاف اور یکسانیت جیسی لفظیات کا اب کیا مطلب ہے؟ہمیں خود کو ایک نیا آئین دینا ہوگا۔‘‘
سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے مذکورہ لفظیات سے انہیں چِڑھ کیوں ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو ان لفظیات پر سوال اٹھاتے رہے ہیں اور نئے آئین کی وکالت یا اعلان کرتے رہے ہیں؟کیا ان کی نظر میں اب جمہوریت کے معنی بدل گئے ہیں؟عدل و انصاف اور یکسانیت کے کوئی اور معنی ہیں؟تعصب اور سماج واد کے وہ معنی نہیں رہ گئے ہیں جو آئین کا ابتدائیہ لکھتے ہوئے تھے؟ان لفظیات پر ان کا سوال اٹھانا یہ بتاتا ہے کہ وہ اسی ٹولے کے حامی ہیں جو آئین اور اس کے علائم پر ابتدا سے سوالیہ نشان لگاتا آیا ہے۔ وہ ان لوگوں کے حامی ہیں جو وقتاً فوقتاً یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ ملک کا قانون تبدیل کیا جائے گا۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آئین کے ابتدائیہ میں جمہوریت کی پوری روح اتر آئی ہے، جمہوریت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ اس میں عدل و انصاف اور یکسانیت کو اولیت حاصل ہو،سماج وادی رویے کو معاشرے میں فروغ حاصل ہو جس کا مطلب باہمی اخوت ہے۔جس ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو، یکسانیت جس کی اولین ترجیح ہو،باہمی اخوت جس کا مطمح نظر ہواور آئین اس کے لیے اپنے عوام کو پابند کرتا ہو،اس کیلئے نئے آئین کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر ضرورت ہے تو ان لفظیات کے متوازی اس نئی جمہوریت یا نئے آئین میں کیا ہوگا؟
وویک دیب رائے نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے، بس انہوں نے یہ کہا ہے کہ ان لفظیات کے حوالے سے سوال کیا جانا چاہیے اور ملک کو ایک نئے آئین کی ضرورت ہے۔ان کے اس مضمون پر جب سوالیہ نشان لگایا گیا اور وزیر اعظم سے متعلقہ کمیٹی کا صدر نشیں ہونے پر ان کے مضمون کو اس تناظر میں دیکھا گیا تو ہر طرف سے صفائیاں دی جانے لگیں؟لیکن سوال یہ ہے کہ آخر نافذ آئین کو کالعدم کیے جانے اور اس کی جگہ دوسرا آئین وضع کیے جانے کی وکالت وہ کس کی شہ پر کر رہے ہیں؟ہنوز اس کا جواب نہیں مل سکا ہے،ان کا تو کہنا ہے کہ یہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے لیکن کیا سرکاری عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ آئین کے خلاف ہرزہ سرائی کرے،اسے ناکارہ بتائے، اس کے باوجود وہ اپنے عہدے پر بنا رہے؟کیا ان کی جگہ اگر کوئی مسلم شخص ہوتا تو حکومت کا رویہ یہی ہوتا جو وویک دیب رائے کے تعلق سے ہے؟میڈیا اور ٹرولر ٹولے کی یہی خاموشی ہوتی؟لیکن چونکہ ان کا تعلق وزیراعظم سے متعلقہ کمیٹی سے ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ان کے منظورنظر ہیں، ایسے میں ان پر کسی طرح کا کوئی سوال نہیں اٹھ رہا ہے۔وویک دیب رائے کے اس مضمون سے قبل اس طرح کی باتیں کئی سیاسی لیڈران کرچکے ہیںاور ایک خاص جماعت سے وابستہ افراد وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں،ان کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ہماری حکومت اس لیے نہیں آئی ہے کہ ہم آٹا،تیل اور پیاز کے بھاؤ کو قابو میں کریں، اصل مقصد آئین کی تبدیلی ہے۔
2017میں مرکزی وزیر مملکت اننت ہیگڑے کا بیان سبھی کو یاد ہوگا جب انہوںنے کرناٹک میں ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بی جے پی آئین میں تبدیلی کے لیے اقتدار میں آئی ہے اور مستقبل قریب میں ایسا کیا جائے گا۔‘‘انہوں نے سیکولرازم پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ’’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آئین میں سیکولرازم کالفظ ہے اس لیے آپ کو اس سے متفق ہونا ہوگا،ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں اسے بھی تبدیل کیا جائے گا۔آئین میں پہلے بھی تبدیلیاں ہوئی ہیں، ہم یہاں آئین بدلنے آئے ہیں، اسے ہم بدل دیں گے۔وویک دیب رائے بھی سیکولرازم پر سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ وہ دوقدم آگے بڑھ کر پورے آئین کو نو آبادیات کا مظہر بتا کر اسے پوری طرح سے بدلنے کی وکالت کر رہے ہیں۔
اس تبدیلی کی خواہش کے بطن میں جو پوشیدہ ہے، وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا،سب یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ آئین میں تبدیلی کے خواہاں ہیں،ان کا ایک خاص مقصد ہے،وہ چاہتے ہیں کہ آئین سے ان لفظیات کو باہر کردیا جائے جو کثرت میں وحدت کی ضامن ہیں،مذکورہ سبھی لفظیات جن پر وویک دیب رائے نے سوالیہ نشان لگایا ہے وہ سب کثرت میں وحدت کی ضامن ہیں،جو ملک کے ہر فرد اور طبقے کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھتی آئی ہیں،ایسے افراد کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک ایسا قانون وضع کیا جائے جس میں کسی بھی لفظ کی تعبیر ان کے اپنے ایجنڈے کے مطابق کی گئی ہو،اور ایسا قانون نافذ کیا جائے جس میں اکثریت کو تفوق حاصل ہو تاکہ صدیو ں کا ان کا وہ خواب پورا ہوسکے جو آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا اور جس کا امکان آئندہ بھی نہیں ہے۔مگر اس طرح کے مضامین اور گفتگو سے وہ زمین کی ہمواری کا اندازہ ضرور لگاتے ہیں، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ انفرادی سطح پر بھی اگر کوئی ایسی کوشش کرتا ہے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے چہ جائیکہ ایسا شخص اس کی وکالت کرے جو ایک اہم عہدے پر ہے۔اسی طرح آزادیٔ اظہار رائے کا مطلب یہ نہیںہے کہ اس کی حدود نہیں ہیں،اس کی بھی حدود ہیں جن میں ہر شخص کو رہنا ہی ہوگا۔ہر محب وطن اورگلدستہ نما ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے پیار کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کی روح کے ساتھ چھیڑچھاڑ کو برداشت کرنے کے بجائے اس کے خلاف میدان میں آئے اور وزیراعظم سے سوال کرے کہ آخر وہ ابھی تک اپنے عہدے پر کیوں ہیں جب وہ ملک کے مکمل آئین کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
[email protected]