مولانا ابوبکرحنفی شیخوپوری
کسی خاص مذہب ،قوم اور قبیلے کے لوگ اپنی رہن سہن، چال چلن اورخوشی وغم کی رسومات ادا کرنے کے مختلف طور طریقے مقرر کرکے جو ایک نظام ِ زندگی تشکیل دیتے ہیں اسے ’’معاشرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہم چونکہ مسلم قوم سے تعلق رکھنے والے ہیں لہذا ہمارے لئے یہ جاننا اشد ضروری ہے کہ وہ کون سے شرعی اصول اور اہم امور ہیں جن پر اسلامی حسن معاشرت کی بلند وبالا اور حسیں عمارت استوار ہے، اس لئے کہ جو قوم اپنے مذہبی تعلیمات سے ناآشنا ہوتی ہے وہ دوسری قوموں کی نقالی میں فخر محسوس کرتی ہے وہ بدترین غلامی کی زندگی گزارنے کی وجہ سے اقوام ِ عالم میں کبھی سر اٹھا کر جینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ آئیے! قرآن و سنت کی روشنی میں معاشرت ِ اسلامی کے خدوخال پر ایک نگاہ دوڑاتے ہیں۔
اصلاحِ معاشرہ کا سب سے پہلا اور بنیادی اصول فرد کی اصلاح ہے، کیونکہ معاشرہ افراد کے مجموعہ سے وجود میں آتا ہے، جب ہر فرد اپنے احوال اور زندگی کے معاملات راہ ِ شریعت اور طریقِ سنت پر گامزن کر لے گا تواس سے معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، معاشرے میں بگاڑ کا اصل سبب ہی یہ ہے کہ کوئی شخص خود کو بدلنا نہیں چاہتا بلکہ جب کوئی مصلح اور مربی کسی کو راہِ راست پر لانے کے لئے دردِ دل سے ناصحانہ گفتگو کرے تو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ صاحب ! ہر بندہ ہی جب جھوٹ ،فریب، بددیانتی ،بداخلاقی اور بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے تو میرے ایک کے سنورنے سے کون سا انقلاب آجائیگا؟ یہی وہ فسطائیت اور گھٹیا سوچ ہے جو تعمیرِ انسانیت اور ترقی معاشرہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ اپنے اندر اچھے اوصاف پیدا کرنے کی بجائے دوسروں کی اندھی تقلید میں اور زیادہ غیر اخلاقی اعمال کی دلدل میں پھنستا چلا جائے۔ اللہ تعالی نے اپنے ازلی و ابدی کلام اور لاریب و بے عیب کتاب میں یہ حقیقت کھلے لفظوں میں آشکارا کر دی ہے کہ فردِ واحد کی اصلاح کے بغیر اصلاح ِ معاشرہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ، ارشادِ باری تعالی ہے: بلاشبہ اللہ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتے جب تک وہ خود کو نہ بدلیں(سورۃ الرعد : ۱۱)۔ یہ ضروری امر ہے کہ ہم اپنی سوچ کا دائرہ وسیع کریں اور ہر آدمی یہ نظریہ رکھے کہ میرے ٹھیک ہونے سے ہی معاشرہ ٹھیک ہو گا۔
اصلاحِ معاشرہ میں بنیادی کردار ادا کرنے والا دوسرا اہم کام ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ہے،ابتدائے آفرینش سے انسانوں میں حقوق کی جنگ کہیں سرد اور کہیں گرم صورت میں جاری ہے ،گویا یہ انسانیت کا عالمی اور آفاقی مسئلہ ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ تمام تر کوششیں اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہیں اور اپنے ذمہ دوسروں کے حقوق پورے کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں جبکہ حقدار اور حق دینے والا دونوں ہی معاشرے کا حصہ ہیں اور ظاہر ہے کہ جب طاقتور اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر دوسرے کا حق غصب کرے گا اور اپنے ذمہ حقوق ادا کرنے سے بے اعتنائی کرے گا تو اس امیر و غریب، طاقتور اور ضعیف، بااثر اور بے اثرکی خود ساختہ طبقاتی تقسیم معاشرتی بگاڑ اور تنازعات کو جنم دے گی جس کا اثر عام لوگوں پر بھی پڑے گا اور کوئی شخص کسی پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے کوئی معاملہ نہیں کرے گا۔ معاشرتی زندگی کو حسین اور گل و گلزار بنانے کے لئے اپنے حقوق حاصل کرنے سے زیادہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا مبارک جذبہ لے کر میدانِ عمل میںاترنا ہوگا، یہی مزاجِ شریعت اور حکمِ قرآنی ہیؤ اللہ تعالی نے میاں بیوی کے باہمی حقوق میں توازن اور اعتدال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:ان عورتوں کے بھی (مردوں کے ذمہ ) حقوق ہیںجیسا کہ ان عورتوں کے ذمہ (مردوں کے ) حقوق ہیں(البقرہ ؛۲۲۸ )۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں وہ شخص انتہاِ قابل قدر ہے جو معاشرے میں محبت و الفت اور امن و امان کی فضاء قائم رکھنے کے لئے اپنے واجبی حق سے دستبردار ہو جاتا ہے،سنن ابی داؤد میں حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے میں (اللہ کی طرف سے ) اس کے لئے جنت کے اطراف میں گھر کا ضامن ہوں۔
حسنِ معاشرت کا تیسرا زریں اصول معاشرے میں احساسِ کمتری پیدا کرنے والی باتوں کو پھیلانے سے روکنا اور حوصلہ افزاء رجحانات کو عام لوگوں تک پہنچانا ہے ،معاشرے میں جہاں کچھ لوگ اپنے غلط طرزِ عمل سے ماحول کو خراب کرتے ہیں وہیں بہت سے خدا ترس اور فرشتہ صفت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے عمدہ کردار اور حسنِ عمل کی خوشبو سے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے اور اس کا صحیح تشخص اجاگر کرتے ہیں ،ہمارا اکثر طبقہ سوشل میڈیا کے ذریعہ معاشرے کے منفی پہلو ؤںکو سامنے لاتا ہے اور مثبت رویوں کو نظر انداز کرتا ہے جس سے یہ تاثر عام ہوتا ہے ہمارا معاشرہ صرف نقائص ،عیوب اور خامیوں سے ہی لبریز ہے اور اس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر یہ سوچتے ہوئے غلط روش پر قائم رہتے ہیں کہ جب سارے ہیں غلط ہیں تو ہم کو صحیح ہو کر کیا کرنا ہے۔ معاشرے کی گرتی ہوئی ساکھ کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں جو اس بات کا ڈنڈورا تو پیٹتے ہیں کہ مسلمان پانی کی ٹینکی کے پاس پڑے ہوئے معمولی قیمت کے گلاس کو بھی نہیں چھوڑتے ۔
لیکن یہ بتانے سے گریزاں رہتے ہیں کہ اس بس سٹاپ ،مسافر خانے اور دیگر پبلک مقامات پراپنی حلال کمائی سے لاکھوں کی مالیت کی یہ ٹینکی لگانے والا اور اپنی جیب سے ماہانہ ہزاروں روپیہ بل ادا کر کے ٹھنڈا پانی مہیا کرنے والا بھی مسلمان ہی ہے۔ اس پست خیالی کے خول سے باہر نکلئے اور دامنِ اسلام میں ملنے والی خداداد خوبیوں کو ٖ فخر سے بیان کیجئے تاکہ تہذیب و ثقافت کے نام نہاد مغربی علمبرداروں اور اسلام کو قدامت پسندی کا طعنہ دینے والی جاہل یورپی اقوام کو پتہ چلے کہ معہد سے لحد تک اور پیدائش سے وفات تک فطرتِ انسانی کے تقاضوں کے عین مطابق دستورِ حیات اور اسلامی معاشرت کی مثال پیش کرنا مشکل ہی نہیں ،ناممکمن ہے۔
اپنی کھوئی ہوئی معاشرتی قدروں اور عہدِ رفتہ کی دھول میں گم ہو جانے والی تابندہ روایتوں کی بحالی کے لئے ان سنہرے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے،اس کے لئے سلف صالحین کا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے جو دل میں اسلامی معاشرت کے احیاء اور ابقاء کی ایک نئی روح پھونک دیتا ہے ۔حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ایک شاہی دربار میں وزیروں ،مشیروں اور امرائِ سلطنت کے ہمراہ کھانا کھا رہے تھے،ان کے منہ سے نوالہ دستر خوان پر گر پڑاتو اسے اٹھا کر دوبارہ منہ کی طرف بڑھایا ،رفقاء نے سرگوشی کرتے ہوئے اور پہلو میں کہنی مارتے ہوئے اس سے منع کرنے کی کوشش کی تو بڑے جلال میں ارشاد فرمایا : کیا ہم ان احمقوں کی وجہ سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت چھوڑ دیں؟ اپنے سٹیٹس سے بے نیاز اور ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہوئے بغیر اپنے معاشرتی اصولوں پر قائم رہنا اصل میں انہیں نفوسِ قدسیہ کا شیوہ تھا ،ہماری نسلِ نو کے لئے ان کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔