غبارہ تنازع: امریکہ-چین پھر آمنے سامنے

0

محمد عباس دھالیوال

تین دہائی قبل جو سرد جنگ امریکہ اورسوویت یونین کے بیچ ہوا کرتی تھی،سوویت یونین کے بکھرنے کے بعدختم سی ہو گئی تھی لیکن گزشتہ ایک دہائی میں روس نے اپنی کھوئی ہوئی طاقت کسی حد تک حاصل کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری 2022سے یوکرین جنگ جاری ہے مگر روس پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ جنگ ختم کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواریوں نے روس کو الگ تھلگ کرنے کی بڑی کوشش کی ہے مگر اب تک ہر محاذ پر امریکہ کومنہ کی کھانی پڑی ہے۔ اس سب کے پس پردہ کہیں کہیں نہ روس کو چین کی حمایت ہے۔ اس طرح اب امریکہ کو ایک نہیں بلکہ دو بڑی عالمی قوتوں سے دو دو ہاتھ کرنے پڑ رہے ہیں۔
بات اگر امریکہ اور چین کے تعلقات کی کریں تو یہ تعلقات بہت اچھے نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ اور چین کے مابین کشیدگی کی رپورٹیں آتی رہی ہیں۔ معاملہ تائیوان کا ہو یا پھر کووڈ-19 کے پھیلنے کا، امریکہ کی چین سے تکرار کوئی نئی بات نہیں رہی۔ ان ایشوز پرامریکہ اور چین ایک دوسرے کے خلاف کھڑے نظر آئے ہیں۔ اب ان دونوں کے درمیان کشیدگی کی نئی وجہ امریکہ کا اپنے فضائی حدود میں چین کے مشتبہ غبارے کو مار گرانا ہے۔ امریکی وزارت دفاع کی جانب سے مشتبہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرانے پر تنقید کرتے ہوئے چین نے امریکہ پر ’واضح طور پر حد سے زیادہ رد عمل اور بین الاقوامی روایات کی سنگین خلاف ورزی‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ، امریکہ کی طرف سے موسمیاتی تحقیق کے غبارے پر حملے کے لیے طاقت کے استعمال کے خلاف سخت احتجاج کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین مزید ضروری رد عمل دینے کا حق محفوظ رکھے گا جبکہ ادھر مذکورہ مسئلے پر پنٹاگن کا کہنا ہے کہ چینی جاسوس غبارے ایف 22 جیٹ سے داغی گئی میزائل سے مار گرایا گیا مگر اس سے قبل شمالی امریکہ پر پرواز کرتے ہوئے اسے کئی دن گزر گئے تھے۔ امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس کارروائی کو دانستہ اور قانونی قرار دیا جو چین کی طرف سے امریکہ کی خود مختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی کے رد عمل میں کی گئی جبکہ اس سے قبل امریکی حکام نے کہا تھا کہ وہ امریکی آسمان پر جاسوسی کرنے والے ایک بڑے چینی غبارے کا سراغ لگا رہے ہیں، چنانچہ اس مشتبہ جاسوس غبارے کی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو بیجنگ کا ایک غیر اہم دورہ بھی منسوخ کر نا پڑا تھا۔ یہ دورہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی پر قابو پانے کے لیے کیا جانا تھا۔
دوسری طرف بیجنگ نے ابتدائی طور پر ہچکچاتے ہوئے مشتبہ غبارے کی ملکیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ دراصل یہ غبارہ موسم کی پیش گوئی کرنے والا تھا۔ چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے واضح طور پر درخواست کی ہے کہ امریکہ اس معاملے کو پرسکون اور پیشہ ورانہ انداز میں نمٹائے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اس معاملے میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ رد عمل ظاہر کیا اور بین الاقوامی روایات کی سنگین خلاف ورزی کی۔ بیان کے مطابق چین متعلقہ اداروں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ یقینی بنائے گا اور مزید درکار ردعمل دینے کا حق محفوظ رکھے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں کہ امریکہ کے فضائی حدود پار کرنے والے ایک بڑے چینی غبارے کو مار گرانے کے چند ہی گھنٹوں بعد وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے چینی ہم منصب سے خصوصی’کرائسز لائن‘ کے ذریعے رابطہ کیا جس کا مقصد ایک فوری جنرل ٹو جنرل کی سطح پر تناؤ کو کم کرنے کے لیے بات کرنا تھالیکن پنٹاگن کا کہنا ہے کہ آسٹن کی کوشش کے جواب میں چینی وزیر دفاع وی فینگے نے لائن پر آنے سے انکار کردیا۔
چین کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے غبارے کو مار گرائے جانے کے بعد آسٹن کی کال لینے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ امریکہ نے بات چیت اور تبادلے کے لیے مناسب ماحول پیدا نہیں کیا تھا۔ وزارت دفاع کے ترجمان کے حوالے سے الزام لگایا گیا کہ امریکہ کی کارروائی نے بین الاقوامی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اور ایک نقصاندہ مثال قائم کی ہے۔ مذکورہ ضمن میں جرمن مارشل فنڈ تھنک ٹینک میں انڈو پیسیفک اسٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر بونی گلیزر ن کہتے ہیں کہ یہ مواصلاتی آلات میں کسی تکنیکی کمی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ چین اور امریکہ کے ملٹری ٹو ملٹری ہاٹ لائنز کی قدر اور مقصد کو دیکھنے کے انداز میں ایک بنیادی فرق ہے۔ امریکی فوجی رہنماؤں کو واشنگٹن تا بیجنگ ہاٹ لائنز پر چین کی فوج کے ساتھ بھڑک اٹھنے والے واقعات کو کم کرنے کے طریقے کے چینی سیاسی نظام کا سامنا ہے جو سیاسی رہنماؤں کی طرف سے سوچی سمجھی مشاورت پر چلتا ہے اور اس میں حریف جرنیلوں کے درمیان انفرادی طور پر بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری طرف چینی رہنماؤں کو ہاٹ لائن کے پورے امریکی تصور پر شک ہے۔ چینی اسے کسی امریکی اشتعال انگیزی کے نتائج سے باہر نکلنے کی کوشش کے امریکی چینل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ادھر نائب وزیر دفاع ایلی رتنر نے چین کے ساتھ ملٹری ٹو ملٹری مواصلات کی دشواری کے بارے میں کہا کہ یہ واقعی خطرناک ہے۔ انہوں نے یہ بات ڈیموکریٹک سینیٹر جیف مرکلے کے ایک سوال کے جواب میں کہی جب انہوں نے بیجنگ اور واشنگٹن کے ہاٹ لائن سیٹ اپ پر چین کی طرف سے رد کیے جانے کے بارے میں مزید جاننا چاہا۔
دفاعی اہلکار نے سینیٹ کے خارجہ تعلقات کی کمیٹی کو بتایا کہ امریکی جنرل چینی ہم منصبوں کے ساتھ رابطے کی مزید لائنیں کھولنے کے لیے اپنی کوششوں پر قائم ہیں جبکہ ادھر صدر جو بائیڈن نے چین کے ساتھ امریکی اختلافات کو’ذمہ داری کے ساتھ‘ نمٹانے کے لیے مواصلات کی لائنیں بنانے پر زور دیا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ اور بائیڈن کے درمیان نومبر میں ہونے والی ملاقات میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دونوں حکومتیں مذاکرات کا ایک سلسلہ دوبارہ شروع کریں گی جو چین نے اگست میں امریکی ایوان نمائندگان کی اس وقت کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان دورے کے بعد بند کر دیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ 2008 کے ایک معاہدے کے تحت، چین-امریکہ ملٹری ہاٹ لائن ایک’ملٹی اسٹیپ پراسیس‘ یعنی کئی اقدامات پر مبنی طریقہ کار کے مترادف ہے جس کے ذریعے ایک دارالحکومت دوسرے کو’انکرپٹڈ‘ لائنوں پر اعلیٰ حکام کے درمیان مشترکہ کال یا ویڈیو کانفرنس کے لیے درخواست بھیجتا ہے۔ معاہدہ دوسری طرف کو جواب دینے کے لیے48گھنٹے تک کا وقت دیتا ہے جبکہ اس معاہدے میں کوئی بھی چیز اعلیٰ حکام کو فوری طور پر بات کرنے سے نہیں روکتی ہے۔n
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS