اسد مرزا
جدید سیاست مواقع کا کھیل نہیں ہے، لیکن ایجنڈے کی ترتیب اور بیانیہ سازی اکثر اس کی رہنمائی کرتی ہے تو کسی بھی سیاسی جماعت کی حکمت عملی کیلئے یہ دو ضروری اجزاء اکثر اس کی کامیابی کا ترجمہ کرتے ہیں۔ہندوستان میں، ان تکنیکوں کو استعمال کرنے والی سیاسی جماعت کی سب سے واضح مثال موجودہ دور کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہے۔ بی جے پی کے لیے ایجنڈا ترتیب دینا اور بیانیہ سازی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس مشق میں اسے اکثر کارپوریٹ کنسلٹنٹس کی مدد حاصل ہوتی ہے، جو اسے ایک منصوبہ تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں، جس سے اسے اقتدار حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بی جے پی نے ان تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا ہے۔ اسی فارمولے کو اپناتے ہوئے بی جے پی نے 1984 کی اپنی پارلیمانی تعداد کو صرف 2 سے بڑھا کر 2014 میں 304 میں تبدیل کر دیا،جس کی قیادت واجپئی-اڈوانی کی جوڑی نے 1984 سے 2009 تک کی تھی، مگر ان کو ان تکنیکوں کو استعمال کرنے میں اتنی ماہر نہیں تھی، لیکن وہ بڑی ہندو برادری کے جذبات کا استعمال کرنے میں بہت ماہر تھے۔2009 سے، پی ایم مودی کی قیادت نے، ان تکنیکوں کو ایک نیا رخ دے دیا اور زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ہر وہ تکنیک استعمال کی گئی، جس میں وہ تکنیکیں بھی شامل ہیں جو مسلم رہنماؤں کا جذباتی طور پر مقابلہ کر سکیں اور انہیں سیاسی طور پر بالکل بے اثر کر سکیں۔
دوسری طرف مسلم قوم کے نام نہاد مسلم لیڈران نے ہمیشہ ایک پسپاں ذہنیت کا ثبوت دیا ہے اور سیاست کی ایک ایسی شکل اختیار کی ہے جو صرف چند منتخب لوگوں کے لیے اقتدار کو یقینی بناتی ہے اور ترقی کے ثمرات کو عوام تک پہنچنے نہیں دیتی۔
درحقیقت ہم نے 22 جنوری 2024 کو ایودھیا میں جو کچھ دیکھا وہ اسی مہم کا خاتمہ ہے، جس کی جڑیں 1985 کے شاہ بانو کیس میں پیوست ہیں۔ جس انداز میں راجیو گاندھی کی قیادت والی حکومت مسلم رہنماؤں کے دباؤ کے سامنے جھک گئی اور سپریم کورٹ کے 1985 کے سیکولر فیصلے کو پلٹ کر مسلم خواتین (تحفظ طلاق ایکٹ) 1986 کو منظور کیا،وہی 1986 میں بابری مسجد کے تالے کو کھلوانے کے لیے ایک اہم سبب بنا، کیونکہ تالہ کھلوانے کے ذریعے آنجہانی راجیو گاندھی کانگریس پارٹی کو اپنے ہندو ووٹروں سے قریب رکھنا چاہتے تھے اور دراصل اس پورے کھیل کے پیچھے ان کے وزیر ارون نہرو کا نمایاں رول تھا۔
اس کے بعد، مسلم قیادت-سیاسی اورمذہبی- دونوں نے جس طرح سے بابری مسجد کیس کو مختلف عدالتوں میں لڑا، اس سے ان کی حقیقت مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ کتنے نافہم اور دور اندیشی سے محروم تھے۔ اگر ہم سچائی کا سامنا کریں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ بابری مسجد کیس کی قیادت کرنے والے ان نام نہاد مسلم لیڈروں میں سے کتنوں نے کیا کبھی ایودھیا یا متنازعہ جگہ کا دورہ بھی کیا، جس سے کہ وہ زمینی حقیقت کا جائزہ لے سکیں؟ جی نہیں، وہ تو اپنے عالیشان بنگلوں میں بیٹھ کر ہی حکمت عملی وضع کررہے تھے۔
حتیٰ کہ وہ وکلاء جو مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کر رہے تھے، اتنے نازک کیس کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، لیکن پیشہ ورانہ قابلیت سے قطع نظر، انہوں نے اس کیس کے ذریعے بھاری رقم کمائی اور سائیکلوں سے عالیشان کاروں اور شاہی بنگلوں کی جانب گامزن ہو گئے۔ وہ سنیئر وکلاء جو واقعی اس کیس کے قانونی اور آئینی پہلوؤں اور نزاکتوں سے واقف تھے، انہیں آہستہ آہستہ کیس سے دور کر دیا گیا اور ان کی جگہ ایسے وکلاء نے لے لی جنہوں نے عدالت میں صرف ضابطے کی کارروائیاں کی تھیں اور ان میں سے کسی میں بھی سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اہلیت نہیں تھی۔
دوسری جانب دونوں بابری مسجد ایکشن کمیٹیوں کی سربراہی کرنے والے سیاسی اور مذہبی رہنما بابری مسجد کے لیے عدالتی مقدمہ لڑنے کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے میں ہی مصروف رہے۔ ان کے زیادہ تر بیانات اور موقف اکثر پسپا ذہنیت اور لغو ہوتے تھے ، بغیر کسی منطقی دلیل یا حکمت عملی کے بھی ہوتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر میں کسی طویل المدتی حکمت عملی یا نظریہ کا فقدان ہمیشہ رہا۔
جنوری 2024 کے آغاز سے، نام نہاد مسلم رہنماؤں کی طرف سے کچھ مشورے جاری کیے گئے، یہ وہ رہنما ہیں جو اب تک بابری مسجد کے معاملے میں کسی بھی طرح سے شامل نہیں تھے۔ اور پہلے کی طرح ان کے مشورے اور پیغامات منطقی پہلو کے بجائے جذباتیت سے بھرپور تھے اور مسلمانوں سے احتیاط برتنے کے لیے کہہ رہے تھے اور یہی کیفیت 1947 سے مسلمانوں کی محاصراتی ذہنیت کو مزید بہتر بتاتی ہے۔
اس کے بجائے بہتر ہوتا کہ مسلم قائدین پہلے سے ہی مستقبل میں ہونے والے ڈرامے کو سمجھ لیتے اور اکثریتی طبقے کے ساتھ تصادم کے بجائے مفاہمت کی کوشش کرتے تو اس سے گزشتہ 32 سال کے دوران مجموعی طور پر کمیونٹی کے لیے نہ مختلف نتائج برآمد ہوتے اور ساتھ ہی وہ بی جے پی کو پھلنے پھولنے سے بھی روک سکتے تھے۔
مزید براں، پچھلے سال سے ہی ایودھیا میں بھگوان رام کی ’پران پرتشٹھان‘ تقریب کو جس طرح بی جے پی نے مذہب کے بجائے سیاسی مہم میں تبدیل کردیا تو ہمارے ان رہنماؤں کا ہدف بی جے پی کی اس مہم کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے ہونا چاہیے تھا۔ جس کے لیے سیاسی سوجھ بوجھ ، دانش مندی اور طویل مدتی حکمت عملی شامل ہونی چاہیے۔ بی جے پی کی اس مہم کو نشانہ بناتے ہوئے مسلم رہنماؤں کو ان ہندو پیروکاروں کا ساتھ دینا چاہئے تھا، جو کہ اس تقریب کو مکمل طور پر غیر ہندو رسم و رواج پر مبنی بتا رہے تھے اور وہ خود بھی 22جنوری کو ایودھیا میں ہونے والی تقریب میں شامل نہیں ہوئے۔
مسلم قائدین کو شروع سے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اس مذہبی تقریب کو ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی مہم میں تبدیل کرنا حکمران جماعت اور اس کے سپریمو کا عظیم الشان منصوبہ ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو وہی تکنیک اپنانی چاہیے تھی،جو اس نے اپنائی تھی۔ لیکن افسوس کہ ہم ان نام نہاد مسلم لیڈروں سے اس کی توقع نہیں کر سکتے جنہوں نے 1947 سے مکمل طور پر پسپا ذہنیت کے ذریعے قوم کی نمائندگی کی ہے۔ان کی مہم کا بنیادی مقصد اس دعوے کا مقابلہ کرنا ہونا چاہیے تھا کہ نیا رام مندر اسی جگہ بنایا گیا ہے، جہاں بابری مسجد کھڑی تھی۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نئے رام مندر کا ’’گربھ گرہ‘‘ بابری مسجد کے مرکزی گنبد سے تقریباً 3 کلومیٹر دور ہے اور اب تک یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش مرکزی گنبد یا مسجد کے منبر کے نیچے ہے۔ یہاں تک کہ نیا ڈھانچہ بھی سابقہ بابری مسجد کے ڈھانچے کی صرف بیرونی دیوار کو چھوتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بابری مسجد والی جگہ پر رام مندر بنانے کا دعویٰ صرف ایک دھوکہ ہے اور وہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔اگر مسلم رہنما اس نکتے کو نمایاں کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی وضع کرتے تو وہ بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کو ناکوں چنے چبواسکتے تھے۔ لیکن اس کے لیے انھیں بابری مسجد کا دورہ کرنا پڑتا، اصل صورت حال جاننے کے لیے، جو ان میں سے کسی نے بھی نہیں کیا اور اس سے ان کی مکمل نااہلی اور برادری کی قیادت کے لیے نااہلی ظاہر ہوتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کی قیادت نوجوان نسل کے ہاتھ میں آجائے، کیونکہ وہ زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ اور نئی راہیں طے کرنے کے لیے کھلے ذہن کے ساتھ اپنی قوم کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ اگر موجودہ قیادت جاری رہتی ہے تو اس سے مسلم قوم مزید تنہائی اور مصیبتوں کے نرغے میں آ سکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ گزشتہ77 سالوں کے دوران ہندوستانی مسلمانوں نے کوئی بھی ترقی نہیں کی ہے لیکن ہر حکومت اعداد و شمار کے ذریعے مسلمانوں کو ہر زمرے میں ناکام ظاہر کرتی رہی ہے تاکہ وہ ان کو ایک ذہنی خلفشار میں پھنسائے رکھے اور یہی طریقہ مسلم قیادت نے بھی اپنایا ہے، کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ حکومت سے قوم کے نام پر اپنے لیے کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتے،جبکہ درحقیقت آج مسلمانوں نے تعلیمی اور معاشی سطح دونوں پر گزشتہ 32 سالوں میں بہت ترقی کی ہے اور یہ بیداری بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہی پیدا ہوئی ہے۔ساتھ ہی جو مذہبی نکات ہیں ان پر ہماری مذہبی قیادت نے بھی کوئی خاص عمل نہیں کیا ہے جیسے کہ شادی بیاہ پر فضول خرچی، لڑکیوں کی تعلیم پر روک اور دیگر مذہبی خرافات۔ اگر ہم صرف اپنی زکاۃ کو ہی ایک جگہ اکٹھا کرکے کسی منصوبے کے تحت اس رقم کا استعمال کریں تو مسلم قوم کی حالت اگلے پچیس سال میں ہی یکسر تبدیل ہوسکتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)