ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
’’باعزت بری‘‘ نے منظرعام پر آنے کے بعد انصاف اور اس کے تقاضوں کے موضوع پر سماجی و سیاسی حلقوں میں پہلی بار ایک مضبوط دستاویز کی بنیاد پر یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ انصاف کا بنیادی مقصد و مطلب ہے متاثرین کو ان کے ساتھ ہوئے ظلم و زیادتی کا بدلہ یا معاوضہ یقینی بنانا، مجرمین کو ان کے جرم کی سزا دینا، سماج سے ایسے عناصر کو محفوظ رکھنا جن سے سماج کو خطرات لاحق ہوں، کسی بھی جرم کا الزام ہونے کا قطعی یہ مطلب نہیں ہوسکتا ہے کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی بھی ملزم کے ساتھ مجرم جیسا سلوک کیا جائے چہ جائے کہ الزام کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے ملک و سماج میں تشدد پسند عناصر موجود رہے ہیں، ان سماج دشمن عناصر سے کیسے محفوظ رہا جائے یہ ہمارے دستور و قوانین میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ الزام کو ثابت کرنے کے لیے ایک شفاف اور خود مختار نظام انصاف کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کا بنیادی اصول تھا کہ جب تک گناہ ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک کسی بھی ملزم کو بے گناہ تسلیم کیا جائے گا نیز گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری الزام عائد کرنے والے کی ہوگی نہ کہ ملزم کی۔ عدالت عالیہ نے انصاف کے بنیادی اصولوں میں تیز رفتار سماعت کے حق کو ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کیا مزید یہ کہ بہت سے فیصلوں میں ان تلخ حقائق کو تسلیم بھی کیا کہ انصاف میں تاخیر ہونا گویاکہ انصاف کا خون ہونے کی مانند ہے۔
’’ باعزت بری‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس نے ہمارے ملک کی ہر حکومت اور اس میں کام کرنے والے سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے اوپر بہت سے مشکل سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ان سوالوں سے ہمارا سماج بھی راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ سیاسی ہی نہیں بلکہ ایک اہم سماجی مسئلہ کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں دہشت گردی کے ان ملزمین کی حقائق پر مبنی روداد جمع کی گئی ہیں جن پر ملک مخالف یا دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ الزام بے بنیاد تھا، ہمارے ملک کی نام نہاد جانچ ایجنسیوں کے پاس ان ملزمین کے خلاف پختہ ثبوت بھی موجود نہیں تھے لیکن ان تفتیشی ایجنسیوں نے ایسے ثبوت تیار کیے جن کی ہمارے ملک کے مروجہ قانون شہادت کے تحت کوئی قانونی اہمیت نہیں تھی، اس کے باوجود عدلیہ کو عموماً دس سے پندرہ برس کا عرصہ بیت گیا یہ فیصلہ کرنے میں کہ پولیس حراست میں لیے گئے اقبالیہ بیان کے علاوہ ملزمین کے خلاف کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے اور ثبوت موجود نہ ہونے کی بنیاد پر ملزمین کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔
باعزت بری ہونے والے آدم بھائی سلیمان بھائی اجمیری و دیگر بنام گجرات اسٹیٹ کا فیصلہ16؍مئی 2014 کو سپریم کورٹ سناتی ہے، اس فیصلے کے آخر میں عدالت عالیہ اپنی رائے پیش کرتے ہوئے تحریر کرتی ہے کہ کس طرح ہماری تفتیشی ایجنسیاں اصل مجرمین کو بچاتی ہیں اور بے گناہوں کو غلط طریقے سے تیار کیے گئے جھوٹے ثبوتوں کی بنیاد پر ملزم بنادیتی ہیں۔ اس کیس میں ملزمین کے اوپر اکشردھام مندر میں حملہ کرنے کا الزام تھا اور ان بے گناہ مسلم نوجوانوں کو پوٹا جیسے سخت قانون کے تحت جیل میں قید کردیا گیا تھا۔ ان کو 2002 میں گرفتار کیا گیا تھا اور تقریباً 12سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد یہ باعزت بری ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ نے پولیس و تفتیشی ایجنسیوں کے کام کرنے کے طریقے پر ہی صرف سوال نہیں اٹھائے تھے بلکہ حکومت کی منشا کے اوپر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے کا سینکشن آرڈر(اجازت نامہ) دیتے ہوئے منصفانہ ذہن کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
باعزت بری ہونے والے بے قصور قیدیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور ابھی تک جیل کی کال کوٹھریوں میں باعزت بری ہونے کا انتظار کرنے والے معصوموں کی فہرست اس سے بھی زیادہ لمبی ہے۔
ہمارے ملک میں دہشت گردانہ واقعات کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو ملزم بنانے کی ابتدا عمومی طور سے بابری مسجد کی شہادت کے بعد1993سے شروع ہوتی ہے جس میں گلبرگہ کرناٹک کے ظہیرالدین اور نثارالدین کو سخت ترین قانون ٹاڈا کے تحت گرفتار کیا گیا تھا جن کو23سال کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا نے11مئی2016کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے باعزت بری کیا تھا، اس پورے عرصے کے دوران اس خاندان کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
اس کتاب میں ایک داستان کشمیر سے تعلق رکھنے والے گلزار احمد وانی کی بھی ہے، جو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے۔30جولائی2001کو کشمیر سے علی گڑھ جاتے ہوئے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے انہیں غیرقانونی طریقے سے گرفتار کیا تھا، جس کے بعدگلزار وانی پر اس دوران پورے ملک میں الگ الگ مقامات پر ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا الزام لگا دیا گیا تھا۔ ان تمام ہی مقدمات میں ایک ہی ثبوت تھا جو کہ پولیس حراست کے دوران پولیس کو دیا گیا اقبالیہ بیان تھا، جس بیان کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہوتی لیکن گلزار وانی کو کل 15 مقدمات میں ملزم بنایا گیا۔یکے بعد دیگرے تقریباً تمام ہی مقدمات میں باعزت بری ہونے کے بعد 20؍مئی 2017 کو 16سال کا عرصہ جیل کی کال کوٹھریوں میں گزارنے کے بعد گلزار وانی اپنے گھر کشمیر واپس گئے۔
باعزت بری ہونے والے بے قصور قیدیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور ابھی تک جیل کی کال کوٹھریوں میں باعزت بری ہونے کا انتظار کرنے والے معصوموں کی فہرست اس سے بھی زیادہ لمبی ہے، اگر انصاف حاصل کرنے کا عرصہ اس قدر طویل ہوجاتا ہے اور باعزت بری ہونے کے بعد ان خاطی پولیس افسران و تفتیشی ایجنسیوں کی کوئی جواب دہی نہیں ہوتی ہے تو یقینا یہ انصاف نہیں ہوگا بلکہ انصاف کا خون ہوگا۔ جیل سے باہر نکلنے کے بعد وہ باعزت کیسے ہوسکتے ہیں اگر حکومت اپنے اداروں کے گناہوں کے لیے معافی نہ مانگے، اگر باعزت بری ہونے والے بے قصور افراد کو حکومت معاوضہ نہ دے۔ یقین مانیں پندرہ سے بیس سال جیل میں گزارنے کے بعد یہ نوجوان ذہنی مریض ہوجاتے ہیں، ان کی اسپیشل دیکھ بھال اور کیئر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے پاس سرکاری یا سماجی سطح پر ان کی معاشی یا ذہنی بازآبادکاری کے لیے کوئی بھی پروگرام موجود نہیں ہوتا ہے۔
دہشت گردی کے الزامات کو مسلم قوم و مذہب اسلام کے ساتھ جوڑنے کی پالیسی ہر حکمراں سیاسی جماعت کا ماضی رہا ہے، کسی بھی سیاسی جماعت نے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات میں بغیر ثبوت کے سالہاسال تک قید و بند کی مشقت برداشت کرنے کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی۔ الزامات چاہے جتنے بھی سنگین کیوں نہ ہوں، ملزم اور مجرم کے بیچ ایک بہت واضح فرق ہوتا ہے لیکن اس فرق کو نہ تو سرکاریں سمجھنا چاہتی ہیں اور نہ ہی ہمارے ملک کی عدلیہ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کے چوتھے ستون کہے جانے والے میڈیا پر لگام لگائے کیونکہ یہ میڈیا ٹرائل ایک خاص اقلیتی قوم کے خلاف پورے سماج میں زہر گھول رہاہے۔ میڈیا کا یہ زہر ملزمین کو انصاف حاصل کرنے میں اثرانداز ہوتا ہے۔ عدلیہ میں بیٹھے ہوئے جج اور سرکاری وکیل بھی اسی سماج سے آتے ہیں اور وہ بھی انسان ہی ہیں، ان کا ذہن بھی پراگندہ ہوسکتا ہے۔
باعزت بری ہونے والے تمام ہی بے قصوروں کا ایک درد یہ بھی ہے کہ ان کے رشتہ داروں اور سماج نے بھی ان کو الزام لگتے ہی ملک و سماج دشمن تسلیم کرلیا۔ ان کے والدین اور بچوں کو محلے اور اسکول میں شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔ اس مشکل گھڑی میں کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، یہ کتاب ان بے قصوروں کی درد بھری داستان کو بیان کرتی ہے، یہ احساس دلاتی ہے کہ کس طرح سیاسی جماعتیں اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے بے گناہوں کی زندگیوں کا استعمال کرتی ہیں اور پورا سماج خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہتا ہے۔ قابل تحسین ہے جمعیۃ علماء ہند جو ان سخت حالات میں بھی ہزاروں بے گناہوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرتی ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ کتاب اردو اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی زبانوں میں بھی شائع ہو، تاکہ یہ حقائق منظر عام پر آئیں۔ معروف صحافی علیم اللہ خان اور منیشا بھلا دونوں اپنے اس دستاویز کے لیے قابل صدستائش و احترام ہیں۔
[email protected]