غیر ضروری مباحث سے اجتناب لازمی

0

خالق کائنات نے تمام جن و انس کے لئے جو اصول وضوابط قائم کئے ،حدود متعین فرمائے ہیںان پر عمل کرکے دونوں عالم کی کامیابی اور کامرانی کاراز قرآن کریم کے احکامات کی فرماں برداری اوررسول کریم ؐکی اطاعت میں رکھا ہے۔ہماری اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ شاید ہی ہمارا رہن سہن ،طور طریقے کا کوئی تعلق عہد رسول ؐ کے مسلمانوں جیسا ہے۔(الا ماشاء اللہ) اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
’’سب مومن بھائی بھائی ہیں ،پس تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادو ،اللہ سے ڈرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔(سورہ الحجرات۔۱۰) رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے، (بخاری،جلد۔1) حجتہ الاسلام امام غزالی ؒفرماتے ہیں،جہنمیوںپر ایک قسم کی خارش مسلط کر دی جائے گی جس کی وجہ سے وہ اپنے بدنوں کو کھجلائیں گے ،یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی ہڈی ظاہر ہو جائے گی تو ندا کی جا ئے گی ،اے فلاں ـ !کیا تجھے اس کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے ؟ وہ کہے گا ۔ہاں ۔ منادی کہے گا ۔ یہ اس کا بدلا ہے جو تم مسلمانوں کو تکلیف دیتے تھے۔(احیا ء العلوم ،جلد ،۲ صفہ،۷۵۶) نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا’’جس شخص کے سامنے کسی مسلمان کی بے عزتی کی جائے اور طاقت کے باوجود اس کی امداد نہ کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے برملہ ذلیل اور رسوا کرے گا۔(مسند احمدابن حنبلؒ) ۔سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا ! ’’میں نے جنت میں ایک شخص کو دیکھا جو کیف و مستی میں جھومتا پھرتا تھا یہ مقام اسے محض اتنی سی بات سے حاصل ہوا کہ دنیا میں اس نے ایک راستے سے ایسا درخت کاٹ دیاتھا جس سے گزر نے والوں کو تکلیف ہوتی تھی‘‘۔(صحیح مسلم ،کتاب البر و الصلتہ ،باب فضل اذالتہ الاذیٰ عن الطریق)
بحث میں انسان حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ دو فریقین کے درمیان مناظرے میں دونوں فریق ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں جو ادب کی مناسبت سے اچھا عمل نہیں کہا جاسکتا ہے۔ جب بھی حنفی ، اہل حدیث، دیوبندی ، بریلوی، سنی اور شیعہ کے درمیان مناظرہ ہوا ہے اس وقت شعائر اسلام کی پامالی ہی ہوئی ہے۔ اس وقت نہ کسی فرقے کی مذمت ہوتی ہے اور نہ کسی فرقے کے عالم کی۔ کوئی فرقہ ہو، کوئی مسلک ہو اس کے پیروکار چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر اس قدر بحث وتکرا ر کرتے ہیں ۔ جیسے مسلکی لڑائی نہ ہوکر ذاتی نام ونمود کی لڑائی ہو۔ دونوں فریق کی تمام عقل ،ساری فہم، اس بات کو ثابت کرنے میں صرف ہوتی ہے کہ ہمارا مسلک حق پر ہے۔
ہمارا نقطہ حیات ہی سیدھا راستہ ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس یہ صرف ہماری خود نمائی نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے اکابرین کے درمیان بھی مباحثہ ہوا ہے۔ ان لوگوں نے بھی علمی بحث کی ہے۔ لیکن وہ لوگ علم کے تحت صرف مباحثہ کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی عقائد یا خدا ورسول ؐ کے ذات اقدس کو لے کر کبھی کوئی مناظرہ نہیں کیا۔ وہ لوگ جن پر اللہ وحدہٗ لاشریک کی سلامتی ہو۔ وہ بحث کے درمیان ادب کے ہر پہلوئوں کو ملحوظ رکھتے تھے۔
حضرت امام باقر علیٰ جدہ وعلیہ السلام نے امام اعظم ابو حنیفہ (نعمان بن ثابت ) رحمتہ اللہ علیہ سے دریافت کیا۔ تم ہی قیاس کی بنیاد پر ہمارے دادا کی حدیثوں سے اختلاف کرتے ہو۔ امام اعظم ؒ نے نہایت ادب سے کہا معاذ اللہ حدیث کی کون مخالف کر سکتا ہے۔ آپؓ اگر اجازت دیں تو کچھ عرض کروں۔ حضرت امام باقرؓ نے اپنی رضا مندی ظاہر کردی تو امام اعظم ابو حنیفہؒ نے سوال کیا۔
مرد ضعیف ہے یا عورت؟ حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ’’عورت‘‘ پھر امام اعظم ؒ نے دوسرا سوال کیا۔ وراثت میں مرد کا زیادہ حصہ ہے۔ یا عورت کا؟ امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا مرد کا۔ تب امام اعظم ابو حنیفہ ؒنے فرمایا اگر میں اپنے قیاس کا سہارا لیتا تو یہ کہتا کہ عورت کو زیادہ حصہ ملنا چاہئے ۔ کیونکہ ظاہر قیاس کی بنیا د پر ضعیف اس رعایت کا زیادہ حقدار ہے۔ پھر امام اعظم ؒ نے ایک اور سوال کیا ۔ نماز افضل ہے یا روزہ۔
امام باقر ؓنے جواب دیا ’’نماز‘‘ امام اعظم ؒ نے فرمایا اس اعتبار سے حائضہ عورت پر نماز کی قضا ہونی چاہیے نہ کہ روزے کی۔ اور میں بھی روزے ہی کی قضاکا فتویٰ دیتاہوں۔ امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ جواب سن کر امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر ط مسرت سے آپ رحمہ اللہ کو پیشانی کو بوسہ دیا اور آپؒ کو گلے سے لگالیا۔
امام محمد ابن حسن شیبانی رحمۃ اللہ اور ان کے شاگرد امام شافعی (محمد ابن ادریس) رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان مسئلہ شادیمین کو لے کر مناظرہ ہوا۔ وہاں پر موجود امام محمد ابن حسن رحمۃ اللہ علیہ (آپ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں) کے شاگردوں نے دیکھا کہ مباحثہ کے درمیان دونوں افراد نے ادب کو اولین ترجیح دی۔ دوران مباحثہ ایسی کوئی بات اپنی زبان سے نہ نکالی کے مقابل کی دل آزاری ہو۔ ایسی کوئی سند نہیں پیش کی کہ جس سے اسلامی شعار کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی ہو۔ آج در اصل ہمارا مناظرہ کسی شخص سے ہوتا ہے تو ہمارے دل میں اس بات کی شدید تمنا رہتی ہے کہ ہم اس شخص کو جو ہمارے مقابل ہوتا ہے کس طرح اپنے دلائل سے زیر کردیں۔ چاہے ہماری بات حق ہو یا نہ ہو۔ ہمیں اس بات کا قطعا خیال ہی نہیں رہتا ہے کہ ہم جو باتیں مقابل کے سامنے پیش کر رہے ہیں اس میں کہاں تک سچائی ہے۔ صرف عزت نفس کی خاطر گناہ بے لذت بٹورتے ہیں۔
حضور ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا ہدایت پاجانے کے بعد وہی گمراہ ہوتے ہیں جنہیں بحث و جدال میں مبتلا کر دیا جاتاہے۔ اس کے بعد سرور کونین ؐ نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ انہوں نے یہ مثال کٹ حجتی سے پیش کی ہے یہ لوگ بڑے جھگڑالوں ہیں۔‘‘
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسالت مآب ؐ نے ٹھہر ٹھہر کر تین بار فرمایا۔ کرید نے والے ہلاک ہوگئے۔ کرید نے والے ہلاک ہو گئے کریدنے والے ہلاک ہوگئے۔
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت عبد اللہ بن حسن رحمۃ اللہ فرمایا کرتے ہیں کہ بحث سے پرانی دوستیاں غارت ہوجاتی ہیں۔ محبت کی گرہیں کھل کر بغض و عداوت کی گرہیں پڑجاتی ہیں۔ مباحثے کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ ہر فریق غالب آنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس سے بڑھ کر پھوٹ ڈالنے والی کوئی چیز نہیں۔ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کاتذکرہ ہوا تو آپ نے حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ تم انہیں جانتے ہو بھی ؟ امت میں سب سے بہتر لوگ تھے ۔ خدا نے انہیں اپنے نبی ؐ کی صحبت ورقابت کے لیے منتخب کیا تھا۔ تم بھی ان کی طرح اپنے اخلاق سنوارو ان کے طریقوں پر چلنے کی کوشش کرو۔ یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ رب کعبہ کی قسم ! وہ سراسرہدایت پر گامزن تھے۔ ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ اہل مجلس سے فرمایا کرتے تھے کہ ،تم ایسے کہاں بر گزیدہ ہو کہ اللہ نے اپنے رسول ؐ کے ساتھیوں سے علم چھپایا،اور تمہارے لئے عیاںرکھا ہے۔ ابو محمد رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف نے علم فقہ میں بحث ومناظرہ کیا ہے۔ لیکن عقائد کے سلسلے میں اس قسم کی گفتگو سے منع فرمایا ہے۔ وہ اس لئے کہ عقائد میں مباحثہ آدمی کو دین سے خارج کردیتا ہے۔ ایک شخص نے مناظرے کے دوران قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی تین آدمی راز کی باتیں کرتے ہیں تو چوتھا ان کے ساتھ اللہ ہوتاہے۔‘‘
وہ شخص ہر جگہ اللہ کے موجود ہونے کی دلیل پیش کررہاتھا۔(مسئلہ وحدت الوجود۔ وحدت الشہود) جواب میں اس کے حریف نے کہنا شروع کردیا۔ اگر یہی بات ہے تو پھر اللہ تمہاری ٹوپی کے نیچے تمہارے باغ کی چار دیواری کے اندر اور تمہارے گدھے کی کھال کے پیچھے چھپاہوگا۔ (معاذ اللہ صد بار معاذ اللہ ، استغفر اللہ ربی من کل ذنبی) وکیع ابن جراح رحمۃ اللہ علیہ (جو عراق کے مشہور محدث گزرے ہیں) نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ حالانکہ اللہ کی قسم ! میرے نزدیک ان لوگوں کی گفتگو نقل کرنا بھی ناپسند یدہ فعل ہے۔ علماء نے اس قسم کی باتوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS