اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی: خواجہ غریب نواز ؒکا تبلیغی اسلوب

0

اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی

آج ہم چاروں طرف برائی، بے حیائی، فحاشی ، ظلم وتشدد کا بازار گرم دیکھ کر دل میں کہتے ہیں کہ اس قوم کا سدھرنا ناممکن ہے، یہ ہمیشہ برائیوں میں ہی ملوث رہیں گے۔ مگر آپ ذہن میں یہ بات بٹھا لیں کہ ہردور میں برائیاں ، برے اور ظالم سفاک لوگ رہتے بھی ہیں اور پہلے بھی رہتے تھے، مگر اس دور کے اولیاء، قطب، مجتہدین اور فرشتہ صفت صالحین کے امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے جہلاء و سفاک اپنی خطا اور سفاکی سے توبہ کرکے راہ ہدایت پہ گامزن ہو جاتے تھے۔ ہمارا ماننا ہے کہ واقعی اگر ہم خلوص کے ساتھ تبلیغ اسلام کریں تو آج بھی کوئی بعید بات نہیں کہ کثیر تعداد میں لوگ راہ ہدایت اختیار کر لیں گے۔ مگر شرط ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے سیرت و کردار کے آئینے میں یہ کام کریں۔ ان کے انداز و اسلوب کو اپنائیں۔ جب ہم اپنے اسلاف کو دیکھتے ہیں تو بے شمار متبرک ہستیوں میں ایک ہستی چھٹی صدی ہجری کے مجدد عطائے رسول سلطان الہند خواجہ خواجگاں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ معروف بہ ’غریب نواز‘ بھی ہیں، جن کی تبلیغ کے حسن اسلوب اور تربیت کے اعلیٰ معیار نے نہ صرف چند افراد کی اصلاح کی بلکہ متحدہ ہندوستان کے 80 فیصد مسلمان آپ کی ہی تبلیغ کا ثمرہ ہیں۔
ایک اچھے مبلغ کے لئے نور علم سے آراستہ ہونا ضروری ہے، چنانچہ خواجہ غریب نواز بچپن ہی سے نہایت ذہین و ذکی تھے۔ والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد آپ دنیاوی مال و اسباب غرباء ومساکین میں تقسیم کرکے طلب علم میں نکل پڑے پھر پہلے بخارا بعدہ سمرقند جاکر فقہ، تفسیر، فرائض، حدیث اور تواریخ کے علوم میں مہارت حاصل کی۔تکمیل علم کے بعد آپ کی مشغولیت دو چیزوں میں تھی مجاہدات و ریاضت سے معرفت الٰہی کا حصول، ساتھ میں تبلیغ دین حق سے مخلوق خدا کو راہ ہدایت پہ گامزن کرنا۔ آپ جب تبلیغ فرماتے تو آپ کے اخلاق و کردار سے ’ان العلماء ورثۃ الانبیاء ‘ کی جھلک نظر آتی، کیونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا نمونہ تھے۔ تقویٰ پرہیزگاری، علم و ہنر، عفو و درگزر میں آپ مثالی تھے، بڑے سے بڑے دشمن حتیٰ کہ جو آپ کے قتل کا خواہاں ہو ،اسے بھی معافی دیتے۔
اسلوب تبلیغ:آپ جن کے درمیان تبلیغ فرماتے تو اوّلا سامعین کو اپنی طرف مکمل توجہ مرکوز کرتے، کسی ایسی چیز کے ذریعے جن کی طرف لوگ راغب ہوں یا جن سے متاثر ہوں، مثلاً آپ کی عادت تھی کہ آپ غرباء ومساکین میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ صدقات تقسیم کرتے، اسی وجہ سے آپ ’غریب نواز‘ سے مشہور و معروف ہوئے۔ اکثر سوالیوں کا ہجوم سا لگ جاتا، ایسے موقع پر آپ انہیں تبلیغ دین فرماتے ہوئے مختصر نصیحتیں فرماتے، جس سے لوگ دھیرے دھیرے آپ کی باتوں سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف مائل ہوتے۔ یا تبلیغ کے لیے ایسی جگہ چنتے جہاں عوام کا ہجوم ہو، عموماً لوگوں کی ضروریات وہاں سے وابستہ ہوں مثلاً پانی کی جگہ کنواں، تالاب، دریا وغیرہ وہاں چونکہ مسلم و غیر مسلم سبھی ہوتے ہیں تو سن کر انہیں نیکی کا جذبہ اور مسلمان ہونے کا حوصلہ پیدا ہوتا۔
اکثر آپ اپنے عمل سے تبلیغ کرنے کی کوشش کرتے مثلاً خوب نیکی کا کام کرتے، عبادت میں مشغول رہتے، سخاوت کے پیکر تھے۔ اسی وجہ سے لوگ غریب نواز کہتے۔ ہر طرح کی معاشرتی برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے۔
تبلیغی منصوبہ بندی اور صبر استقامت: اثر انگیز تبلیغ کے لیے منصوبہ بندی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ بھی منصوبہ بند طریقے سے تبلیغ واشاعت فرماتے کہ رات اکثر کتابوں کے مطالعہ میں مصروف رہتے اور سیر و سیاحت کے وقت انہیں دماغ میں مرتب کیا کرتے۔ اگرچہ ہندوستان میں اکثرلوگ اَن پڑھ تھے کہ اعتراض کرنا ناممکن سا تھا مگر آپ اس پہ وارد ہونے والے شبہات کا حل پہلے ہی کرلیتے۔
آپ تبلیغ فرماتے تو صبر و استقامت کے ساتھ مسلسل ڈٹے رہتے ایسا نہیں کہ کوئی بات نہیں مانتا یا مخالفت پر اتر آتا تو آپ تبلیغ سے پیچھے ہٹ جاتے بلکہ آپ کا تو حال یہ ہے کہ وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کو بھی ہزار مخالفت کے باوجود تبلیغ کرتے رہے ۔
آسان اور عام فہم لہجہ:آپ کی تبلیغ بالکل واضح اور مثالوں کے ساتھ ہوا کرتی۔کوشش یہ ہوتی کہ جن کو تبلیغ کر رہے ہوں، انہیں کی زبان میں ہوں، آپ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے مثلاً عربی، فارسی، رومی،سنسکرت، تمل اور تیلگو وغیرہ۔ اردو زبان آپ کی تبلیغی خصوصیات کا نتیجہ ہے، وہ اس طور پر کہ عربی، فارسی، سنسکرت، تمل، تیلگو کا مجموعہ ہی اردو ہے اور آپ تبلیغ کے دوران عموماً اردو ہی بولتے، جس سے سبھی لوگ آسانی سے آپ کی باتیں سمجھ جاتے، نہ کہ بالکل فارسی جو آپ کی مادری زبان تھی، نہ ہی بالکل عربی کہ کوئی سمجھ نہ پائے۔
غیر انسانی رسوم، چھوت چھات اونچ نیچ اور ذات پات وغیرہ کے بارے میں صحیح رہنمائی کرنے والے جنوبی ہند کے علاوہ میں آپ ہی اولیت پہ فائز تھے۔
اسلام کے لیے کبھی کسی کو مجبور نہیںکرتے:آپ کسی پر بھی مسلمان ہونے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے بلکہ اپنے اعمال و اقوال اور اخلاق و کردار سے متاثر کرکے راہ حق پر گامزن کرنے کی کوشش کرتے۔ اسی وجہ سے آپ اتنے کامیاب بھی ہوئے۔ آپ کی مجلس میں ہر کسی کو آنے کی اجازت تھی، کسی کے ساتھ دوہرا رویہ نہیں اپناتے، بلکہ مساوات کا درس دیتے تو مساوات کا برتاؤ بھی کرتے۔
علماء و خلفاء کو عظیم مبلغ بنایا: تبلیغ دین کے لیے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے علوم و فنون کو اپنے مریدین و خلفاء میں ودیعت کر کے انہیں مبلغانہ خوبیوں سے سرفراز فرمانا اور اس معاملے میں بھی آپ اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے کہ جن کو خلافت و اجازت فرماتے وہ حضرات بھی آپ ہی کے پرتو تھے۔ انتہائی مخلص، دینی جذبہ لئے ہوئے، دیہاتوں اور قصبوں میں آپ کے مشن کو فروغ دیتے اور لوگوں کو زیور علم سے آراستہ کرتے۔ ان میں سرفہرست خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔n
[email protected]
(دارالعلوم غریب نواز ،جھلوا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS