پندرہ اگست اور اہل مدارس

0
Iamge: Mar Ujala

امام علی مقصود فلاحی
مغل حکومت کے آخری ایام میں انگریزوں نے ایک تجارتی کمپنی کے ذریعے نہ صرف بھارت کے سرمائے کو لوٹا بلکہ ناجائز طریقے سے ملک کے باگ ڈور کے مالک بھی بن بیٹھے اور باشندگان ملک پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے، جسکے بیان سے آسمان اشکبار اور زمین لرزیزہ ہوجاتی ہے، لیکن بہت ہی کوششوں اور جہد مسلسل کے بعد آزادی کا سورج طلوع ہوا اور غلامی کی تاریکی تار تار ہوگئی۔اور پندرہ اگست 1947 کو بھارتی عوام نے آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا حق حاصل کیا۔
آزادی کی اس لڑائی میں تقریباً تمام قوموں نے بھر پور حصہ لیا مگر اسلام کے جیالوں کی قربانیاں دیگر اقوام سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، کیونکہ آزادی کے لئے آواز اٹھانے والے بھی مسلمان تھے، اور میدان میں انکے مدِ مقابل بھی مسلمان تھے، ظالم حکمرانوں کو مجبور کرنے والے بھی‌ مسلمان تھے، اس سے انکار نہیں ہے کہ دوسری قوموں نے اس مقدس جنگ میں حصہ نہیں لیا ہے، مگر اصرار اس پر ہے کہ مسلم علماء و عوام کے خون سے ملک کا چپہ چپہ لالہ زار ہے، جس سے غفلت برتنا نہ اپنوں کے لئے رواں ہے نہ غیروں کے لئے جائز ہے۔لیکن جب ملک آزاد ہو گیا تو مسلم علماء اپنی خانقاہوں اور مدارس کی جانب لوٹ گئے، دین کی خدمت اور پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہوگئے، چونکہ علماء کا یہ گروہ مقدس وطن کو آزاد کرنا کار خیر سمجھا تھا یہی وجہ تھی کہ آزادی کے بعد نہ انہوں نے حکومت میں عملی شرکت کی اور نہ ہی اسکا مطالبہ کیا، جو انکی پاکیزہ نیت اور وطن کے لئے بے لوث محبت کا ثبوت ہے۔لیکن جب حالات نے کروٹ لی اور مسلم مخالف ماحول تیار کیا گیا، تو ہندو احیاء پسند تحریکات نے مسلم علماء و عوام کے کارناموں کو دھیرے دھیرے مٹانا شروع کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے خلاف صرف ہندوؤں نے ہی لڑائی لڑی ہے، قربانیاں بھی انہوں نے ہی دی ہے، چنانچہ سرزمین بھارت پر ہندوؤں کے علاوہ کسی کو رہنے کا حق نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک خاص قوم کا ملک ہے۔
ہندوازم کے نشہ میں عصبیت زدہ برادران وطن کی اس کور بینی میں مسلم سماج بالخصوص مدارس اسلامیہ کی غفلت کو بھی بڑا دخل ہے، کیونکہ آزادی کے حقیقی وارثین یہی مدارس اسلامیہ ہیں، ان مجاہدین کے کارناموں اور انکی قربانیوں کے تذکروں کو ایک غیر ضروری شئے سمجھ کر ترک کردیا۔بے شک ان علماء اکرام نے آزادی کے بعد تاج و تخت سے بیزاری کا اظہار کیا، گرچہ آزادی کے بعد ہونے والے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کا یہ رویہ مسلم سماج کے لئے غیر نافع واقع ہوا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس درجہ کی بے نیازی کے پیش نظر بعد والوں نے انکے کارناموں اور انکی قربانیوں کو بیان کرنا گویا بے فضول و بے کار سمجھا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکول و کالجز میں زیرِ تعلیم طلبا کی تو بات ہی چھوڑیں مدارس اسلامیہ کے احاطے میں شب و روز گزارنے والے طلباء بھی چند مسلم مجاہد آزادی کے علاوہ بقیہ سے ناآشنا ہیں، اور جن چند شخصیات کا تذکرہ زبان پر باقی رہ گیا ہے، ان میں سے سر فہرست شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، رحمہم اللہ ہیں۔چونکہ یہ اسما قلمکاروں کے مضامین اور خطباء تقریروں میں ذکر کئے جاتے ہیں اسی لئے نئی نسل ان سے واقف ہے، ورنہ شاید ہی کوئی انھیں جانتا۔اسی لئے آزادی وطن کی خاطر علماء اکرام کی طرف سے پیش کی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ کرنا، انکے نام پر جلسے کرانا ، انکی یاد گاریں قائم کرنا، ملکی سیاسی اور قومی عصبیت کے پیش نظر وقت کا اہم تقاضہ ہے، تاکہ تمام اقوام کی آنے والی نسل اس بات سے واقف ہو سکے کہ آزادی کا سہرا کسی ایک فرد یا ایک قوم کے سر نہیں بلکہ تمام اقوام نے مل کر یہ خدمت انجام دی ہے، بالخصوص مسلمان اس مقدس جنگ میں زیادہ متحرک رہے، کیونکہ ان کے بغیر جنگ آزادی ممکن ہے نہیں تھی، کیونکہ یہی وہ قوم ہے اور یہی وہ مذہب ہے جس میں جنگ و جہاد کی اجازت ہے۔بہر کیف اہل مدارس چونکہ ان حضرات کے حقیقی وارث ہیں، اسی لئے انہیں چاہئے کہ وہ ایسا لٹریچر اور مواد تیار کریں جو لوگوں کے لئے قابل مطالعہ بلکہ واجب مطالعہ ہو، جس میں ان حضرات کے کارنامے ہوں جنہوں نے ملک کو آزاد کرانے کے خاطر اپنے تن من دھن کی قربانیاں پیش کر دی۔
(متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS