اہم سوال، سرکلرکس کے اشارے پر جاری ہوا؟: مولاناارشدمدنی

0

نئی دہلی :جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وکلا نے پوری تیاری کے ساتھ عرضی داخل کی ہے، جس میں اہم نکتوں کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی ہی نظرمیں لگتاہے کہ نئے اسٹیٹ کوآرڈی نیٹرنے اس معاملہ میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ عدالت کا اسٹیٹ کوآرڈی نیٹرکے خلاف نوٹس جاری کرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ ان کا قدم غلط ہے ، لیکن اپنی جگہ یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخرانہوں نے کس کے اشارے یا حکم پر ایسا کیا؟۔ مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ این آرسی کے پورے عمل کی سپریم کورٹ خودنگرانی کررہا ہے، یہاں تک کہ رجسٹرار آف انڈیا اور اس وقت کے اسٹیٹ کوآرڈی نیٹرنے جب ایک انگریزی کے اخبار سے گفتگوکی تھی تو اس پر عدالت نے ان کی سخت سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ وہ آئندہ عدالت کے علم لائے بغیر کوئی کام نہیں کریں گے۔ عدالت دوبارہ این آرسی کرانے یا ری ویری فکیشن کی ضرورت کو پہلے ہی مسترد کرچکی ہے، ایسے میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اب جبکہ این آرسی کا عمل مکمل ہوچکاہے اور اس سے باہر رہ گئے تقریباً 19 لاکھ لوگوںکا مسئلہ باقی رہ گیا ہے، اس میں تقریباً 13 لاکھ غیرمسلم اورقریب6لاکھ مسلمان ہیں۔ اسٹیٹ کوآرڈی نیٹر اپنے طور پر ری ویری فکیشن کرواکر اس طرح کا حکم نامہ جاری کرکے ایک بارپھر پوری ریاست میں ڈراورخوف کی فضا پیداکرنا چاہ رہے ہیں اوران لوگوں کو بھی کسی نہ کسی طرح این آرسی سے نکال باہر کردینا چاہ رہے ہیں، جو اپنی شہریت ثابت کرچکے ہیں۔
 مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف انسانیت کی بنیادپر آسام شہریت معاملے کو لے کر ابتداہی سے قانونی جدوجہد کر رہی ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ مسئلہ ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے، جس میں ایک چھوٹی سی غلطی سے پورے پورے خاندانوں کی زندگیاں تباہ وبرباد ہوسکتی ہیں اور اس صورت میں ہمارے ملک میں ایک بڑا انسانی بحران بھی پید اہوسکتاہے۔ انہوںنے کہا کہ جب گوہاٹی ہائی کورٹ نے پنچایت سرٹیفکیٹ کو شہریت کا ثبوت ماننے سے انکارکردیا تھا توآسام میں تقریباً 48 لاکھ شادی شدہ خواتین کی زندگیوں پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا، اس فیصلے سے تقریباً 25لاکھ مسلم اور 23 لاکھ ہندو خواتین کی شہریت چھن جانے کا خطرہ پیداہوگیا تھا، ایسے وقت میں یہ جمعیۃعلماء ہند تھی، جو اس اہم مسئلے کو سپریم کورٹ لے کر گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے جمعیۃعلماء ہند کے موقف کو تسلیم کرکے پنچایت سرٹیفکیٹ کو شہریت کا ثبوت مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد میں نے اپنے ایک ردعمل میں کہا تھا کہ میری پوری جماعتی زندگی میں اس سے پہلے مجھے اتنی خوشی کبھی نہیں محسوس ہوئی، جتنی کی آج ہورہی ہے، کسی کانام لئے بغیر انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ اس مسئلہ کو ابتداہی سے مذہب کی عینک سے دیکھتے آئے ہیں، لیکن ہم اس مسئلے کو انسانیت کی نظرسے دیکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہم عدالتوں میں شہریت معاملے کولے کر آسام کے تمام شہریوں کے مفادکی لڑائی لڑرہے ہیں۔ انہوں نے آخرمیں کہا کہ اس طرح کے ہر معاملے میں عدالت سے ہمیں انصاف ملاہے، چنانچہ اس معاملے میں بھی ہم توقع کرتے ہیںکہ عدالت کاجوبھی فیصلہ آئے گا،وہ آسام کے تمام شہریوں کے وسیع ترمفادمیں ہوگا ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS