اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہوچکی دنیا کا ایک ملک آج جہنم بن چکا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں کی ہر نئی صبح افغانیوں کے لیے خوف اور ماتم کا نیا باب لے کر آتی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں انسانیت آہستہ آہستہ مررہی ہے، زندگی موت سے بھی بدتر ہوچکی ہے اور جہاں انسان اور انسانیت کا ذکر بھی بے معنی ہوگیا ہے۔ کابل سے لے کر قندھار تک طالبان جس طرح خونیں کھیل کھیل رہے ہیں اس سے پوری دنیا سہمی ہوئی ہے۔ طالبان نے جتنی آسانی اور تیزی سے افغانستان پر قبضہ جمایا ہے، اس نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ آہستہ سے آغاز کرنے کے بعد راجدھانی کابل کا تختہ پلٹ کرنے میں طالبان کو دو ہفتے سے بھی کم وقت لگا۔ لیکن اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ سارا کھیل راتوں رات پلٹا ہے تو یہ بھی سچ نہیں ہے۔ افغانستان پر باریک بینی سے نظر رکھنے والے ماہرین، تاریخ داں اور کئی تحقیقاتی صحافی طویل عرصہ سے بار بار وہاں کسی انہونی کا انتباہ دے رہے تھے۔ کم سے کم تین سال پہلے سے امریکہ کے ہی کئی مشہور اخبارات میں آج کے افغانستان کی جھلک پیش کرنے والے مضامین شائع ہورہے تھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ 20سال میں امریکی سایہ میں رہنے کے باوجود کسی بھی افغانی حکومت کے دور میں پورا ملک اس کے قبضہ میں کبھی نہیں رہا۔ ہر حکومت میں کچھ نہ کچھ علاقوں میں طالبان کی حکومت قائم رہی۔ یہ جدوجہد گزشتہ 20سال سے جاری تھی۔ ظاہری طور پر زمینی حالات سے نہ تو امریکہ انجان تھا، نہ اقوام متحدہ اور نہ ہی باقاعدگی سے دنیا کی خیرخبر رکھنے والے متجسس لوگ۔ اسی لیے اب جب کہ امریکی فوج واپس اپنے وطن لوٹ رہی ہے تو اس کے فیصلہ پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ امریکہ نے کیسے طے کرلیا کہ افغانستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا ہے، جب کہ طالبان نے اس کے 20سال کے دعوؤں کو 20دن میں ہی تباہ کردیا؟ یا پھر اگر واقعی 9/11کا بدلہ اور اوساما بن لادن کا خاتمہ ہی اس کا ہدف تھا تو 2مئی 2011کو لادن کے مارے جانے کے بعد امریکی فوج افغانستان میں کیا کررہی تھی؟ آخر دو دہائیوں کا طویل عرصہ، 850بلین ڈالر یعنی تقریباً 64لاکھ کروڑ روپے کا بھاری بھرکم خرچ جو کئی ممالک کی جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے، تقریباً ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں کی جان اور 20ہزار سے زیادہ فوجیوں کو تاحیات معذوری دینے کے بعد امریکہ کو اس فیصلہ سے حاصل کیا ہوا؟ الٹے امریکی انتظامیہ کو تقریباً پونے چار کروڑ افغانیوں کو جہنم میں جھونک کر خود میدان چھوڑنے کی تہمت جھیلنی پڑرہی ہے۔ ہوسکتا ہے ان سوالات کے جواب امریکہ کبھی نہ دے۔ باقی دنیا کو بھی ان سوالات سے زیادہ فکر اس بڑے خطرے کی ہونی چاہیے، جس کی آہٹ اب صاف سنائی دے رہی ہے۔ افغانستان کی گدی ہتھیانے کے لیے طالبان کو جس طرح کئی اسلامی دہشت گرد تنظیموں سے مدد ملی ہے، وہ آنے والے دنوں میں عالمی تحفظ کے لیے سنگین خطرے کی وجہ بن سکتی ہے۔ برطانیہ کے ڈیفنس سکریٹری بین والیس نے خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ناٹو فوج کی اچانک واپسی سے جہاں القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیموں کو پھلنے پھولنے کے لیے محفوظ آرام گاہ مل سکتی ہے، وہیں چھوٹے چھوٹے دہشت گرد گروپ امریکہ، یوروپ اور جنوبی افریقہ میں اپنی سرگرمیاں تیز کرسکتے ہیں۔ والیس جس خدشہ کا اندازہ لگارہے ہیں، افغانی فوج کے جنرل سامی سادات نے اس سے بھی خوفناک صورت حال کا انتبادہ دے دیا ہے۔ سادات کے مطابق پوری دنیا کی دہشت گرد تنظیموں کو یہ امید اس جرأت کے لیے اکسا سکتی ہے کہ اگر طالبان ایک پورے ملک پر قبضہ کرسکتے ہیں تو وہ بھی ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ اس دعوے کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ طالبان کی کامیابی القاعدہ کے ساتھ ساتھ تقریباً ختم ہوچکے آئی ایس آئی ایس میں نئی جان ڈال سکتی ہے۔ بوکوحرام، حقانی گروپ، الصحاب کے ساتھ پاکستان میں سرگرم تحریک طالبان، لشکر اور جیش جیسی تنظیمیں دنیا میں دہشت گردی کا رقص کرنے کے لیے ہاتھ بھی ملاسکتی ہیں۔ ہندوستان ان ممالک میں شامل ہے جو سیدھے سیدھے اس امکانات کے دائرہ میں آتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ ہمارے رشتے اتنے ہموار نہیں ہیں، جتنے چین، پاکستان یا روس-ایران جیسے ممالک کے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ 20برسوں میں ہندوستان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ افغانستان ایک خوشحال اور جمہوری ملک بنے، لیکن دوسرے ممالک کے ہدف مختلف رہے۔ چین کے لیے افغانستان میں استحکام کے معنی شن جیانگ صوبہ اور اس کے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے تحفظ سے وابستہ رہے ہیں تو روس اسے وسطی ایشیا میں خود اور اپنے اتحادی ممالک کے کوچ کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایران کی دلچسپی اپنے یہاں پیدا ہونے والے مہاجرین کے بحران کو کسی طرح ٹالنے کی رہی ہے۔ یہی حال سرمایہ کاری سے متعلق ہے۔ ہندوستان نے افغانستان میں تین بلین ڈالر کی جو سرمایہ کاری کی ہے، وہ قرض واپسی کے طور پر نہیں، بلکہ چار دہائی سے عالمی سپرپاورس کے طاقت کے مظاہرہ اور لوٹ کھسوٹ کے شکار ایک ملک کی تعمیرنو کے لیے کی گئی مدد ہے۔ یہ افغانستان کے لوگوں کی زندگی میں خوشحالی لانے کے مقصد سے کی گئی ہے۔ لیکن طالبان کے اقتدار میں واپسی سے کافی کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہندوستان نے افغانستان میں اسپتال، اسکول، پل جیسے تقریباً 500چھوٹے بڑے پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ افغانستان کے پارلیمنٹ ہاؤس، سلمیٰ ڈیم، جارانج-دیلارام جیسے پروجیکٹس کافی بڑے ہیں اور ان پر خرچ بھی کافی آیا ہے۔ حالاں کہ تختہ پلٹ کے بعد بھی ہندوستان کی یہ مدد افغانستان کے لوگوں کے کام آتی رہ سکتی ہے، لیکن طالبان کا کیا بھروسہ؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نئی حکومت بننے کے بعد وہاں چین اور پاکستان کا کتنا دخل رہتا ہے۔ دونوں ممالک کی دلچسپی افغانستان کے پروجیکٹوں سے زیادہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ سے متعلق نظر آسکتی ہے۔ یہ بندرگاہ ہندوستان کے لیے ایران کے راستہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کی راہ کھولنے کا کام کرتی، لیکن اب یہ پروجیکٹ بھی کھٹائی میں پڑسکتا ہے۔ ہندوستان کے کاروباری مفادات کو زک پہنچانے کے لیے چین اور پاکستان طالبان کو کراچی یا گوادر بندرگاہ کے ذریعہ تجارت کرنے کے لیے راضی کرسکتے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے تو چاہ بہار میں ہماری بھاری بھرکم سرمایہ کاری پر بھلے ہی پوری طرح سے پانی نہ پھرے، لیکن اس کی افادیت بے حد کم رہ جائے گی۔
سومناتھ مندر کے چار پروجیکٹوں کی رسم اجرا کے پروگرام میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھولے ناتھ کے بھکتوں کو تحفہ دینے کے ساتھ ہی اشاروں اشاروں میں دنیا کو طالبان کا انجام بھی بتایا ہے۔ توڑنے والی طاقتیں اور دہشت گردی کے زور پر سلطنت کھڑی کرنے والی سوچ کسی دور میں کچھ وقت کے لیے بھلے ہی حاوی ہوجائیں، لیکن ان کا وجود کبھی مستقل نہیں ہوتا ہے۔
دہشت گردی کے بنیادی سوال پر واپس آئیں تو پی او کے ہندوستان کے لیے مزید چیلنجنگ بن جائے گا۔ جیش کا سرغنہ مسعود اظہر طالبان کا پرانا ساتھی ہے۔ لشکر، آئی ایس، القاعدہ سبھی طالبان کے تختہ پلٹ میں براہ راست یا بالواسطہ شامل ہیں۔ یہ سبھی جتنے ہندوستان کے کٹردشمن ہیں، پاکستان ان کا اتنا ہی کٹر حمایتی ہے۔ موجودہ وقت میں پاکستان اور چین سب سے زیادہ فائدے میں نظر آرہے ہیں۔ چین افغانستان کو سرمایہ کاری کی نئی زمین کے طور پر دیکھ رہا ہے تو پاکستان کو افغانستان سے ہندوستان پر دہشت گردی کی دھار تیز کرنے کی نئی توانائی مل رہی ہے۔ لیکن یہ دونوں ممالک بھی طالبان کی ’سنک‘(جنون) سے محفوظ نہیں ہیں۔ طالبان کسی بھی وقت اویغور مسلمانوں کو ورغلاکر چین کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ اسی طرح افغانی طالبان کی حوصلہ افزائی سے پاکستان میں پھل پھول رہی تحریک طالبان عمران حکومت کا سردرد بڑھا سکتی ہے۔ بہرحال بیک ڈور ڈپلومیسی کے درمیان ہندوستان فی الحال ویٹ اینڈ واچ کی حالت میں ہے۔ لیکن طالبان کی دہشت گردی سے خوفزدہ دنیا کو ہندوستان سے اعتماد کا ایک بڑا پیغام ضرور ملا ہے۔ سومناتھ مندر کے چار پروجیکٹوں کی رسم اجرا کے پروگرام میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھولے ناتھ کے بھکتوں کو تحفہ دینے کے ساتھ ہی اشاروں اشاروں میں دنیا کو طالبان کا انجام بھی بتایا ہے۔ توڑنے والی طاقتیں اور دہشت گردی کے زور پر سلطنت کھڑی کرنے والی سوچ کسی دور میں کچھ وقت کے لیے بھلے ہی حاوی ہوجائیں، لیکن ان کا وجود کبھی مستقل نہیں ہوتا ہے۔ بحران کے اس وقت میں بھی انسانیت کی فتح کے تئیں وزیراعظم کا اعتماد غیرمتزلزل ہے۔ سب کی کوششوں سے فتح کا یہ یقین دنیا کے لیے کسی بڑی یقین دہانی سے کم نہیں ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)