اسمبلی انتخابات: انتظار 3 دسمبر کا!

0

ایم اے کنول جعفری

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا مضبوط قلعہ تسلیم کی جانے والی ریاست مدھیہ پردیش میں اس مرتبہ سیاسی منظر کافی تبدیل نظر آ رہا ہے۔ اس نظریے کو اس فیصلے سے بھی طاقت مل رہی ہے کہ اس مرتبہ ریاست کی انتخابی جنگ وزیراعظم نریندر مودی کے چہرے یا وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں نہیں لڑی جا رہی ہے۔ اس بار بی جے پی تھنک ٹینک نے اجتماعی قیادت میں چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی اعلیٰ کمان نے ریاست میں اقتدار بچانے کے لیے اپنے اپنے علاقے کی ذمہ داری الگ الگ اعلیٰ رہنماؤں کو سونپی ہے۔دوسری جانب کانگریس کے سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ کا قد دیگر رہنماؤں کے مقابلے کہیں اونچا ہے۔ اس کے باوجود کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے بھی بی جے پی کی طرز پر الیکشن میں قسمت آزمانے کے لیے اجتماعی قیادت کو ہی ترجیح دی ہے۔ کانگریس کی کوشش ’آپریشن لوٹس‘ کے ذریعے گنوائے گئے اقتدار کو پھر سے حاصل کرنے کی ہے۔ بی جے پی کی جانب سے اجتماعی قیادت میں انتخابات لڑنے کے اعلان کے بعد وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے مستقبل پر تذبذب کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جبکہ کانگریس کی صورت حال بی جے پی سے کچھ الگ سی ہے۔اگر کانگریس انتخاب جیت جاتی ہے تو نمبر ایک کی پوزیشن پر کمل ناتھ ہی نظر آتے ہیں۔
گزشتہ چناؤ کے بعد کمل ناتھ کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ جیوترادتیہ سندھیا کے ذریعے اپنے متعلقین اسمبلی اراکین کے ساتھ بی جے پی سے ہاتھ ملا نے کے بعد کانگریس کی سرکار گر گئی تھی۔ بی جے پی نے حکومت بنائی اور ایک مرتبہ پھر ماما کے نام سے مشہور شیوراج سنگھ چوہان وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ اس مرتبہ ماما حاشیے پر کھڑے ہیں۔ حالانکہ سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ ایک دم دار چہرہ ہیں لیکن انہیں پارٹی کا چہرہ نہیں بنایا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل اور راجستھان میں اشوک گہلوت کا بھی یہی حال ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی سوچ یہ ہے کہ سابق وزرائے اعلیٰ یا کسی دوسرے رہنما کو قیادت کی ذمہ داری سونپنے سے پارٹی کی انتخابی اجتماعیت بکھر سکتی ہے اور انتخابات میں پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت سازی کا عمل خاصا آسان ہونے کے قوی امکان ہیں۔ کچھ سیاسی ماہرین 5 ریاستوں کے الیکشن کو اگلے برس ہونے والے عام انتخابات کا سیمی فائنل قرار دے رہے ہیں تو کچھ کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ رائے سے اتفاق نہیں رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس نے اچھا مظاہرہ کیا تھا۔ صوبائی انتخابات میں اچھی سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود لوک سبھا انتخابات میں نتائج کانگریس کی امیدوں کے خلاف آئے تھے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد قریب المرگ انڈین نیشنل کانگریس میں ایک مرتبہ پھرزندگی کی امنگ پیدا ہو گئی ہے۔ ہماچل پردیش کے بعد کرناٹک کے انتخاب میںپنجے نے جس طرح طاقت دکھائی، اسے صرف اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ سابق صدرراہل گاندھی، جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی اور صدر ملکارجن کھڑگے سمیت کئی دیگر رہنماؤں کی سخت اجتماعی محنت کی بدولت عام رائے دہندگان میں اپنی گرفت مضبوط کرنے سے کانگریس کا ٹیمپو ہائی ہے ۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ9 اکتوبر کو چیف الیکشن کمشنرراجیو کمار کے ذریعے انتخابات کا اعلان کرنے سے قبل زعفرانی خیمے میں کسی طوفان کا پیغام دینے والی ہلچل کسی قدر تیز تھی۔ ایک کے بعد ایک کئی نمائندوں کو نہ صرف سفید خیمے میں اپنا مستقبل روشن نظر آیا بلکہ کچھ نے تو اس میں داخل ہو کر ہی دم لیا۔ اس بھگدڑ کا فائدہ دیگر جماعتوں کو ملا۔ ایم پی میں شیوراج سنگھ چوہان نے آبادی پر مبنی کئی اسکیموں کے ذریعے پارٹی کے لیے خواتین کا ووٹ بینک تیار کیا۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے آدھی آبادی کو سرکاری ملازمتوں میں 35 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان بھی کر دیا۔ یہ بل گزشتہ مہینے پارلیمنٹ میں پاس ہوا تھا۔ بل کے ذریعے بی جے پی کی کوشش ووٹ بینک سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی ہے۔ اب یہ بات بھی چھپی نہیںہے کہ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان سے رائے دہندگان بڑی حد تک ناراض ہیں۔ عوام کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترے صوبائی ماما میںلوگوں کی دلچسپی نہیں ہے۔ اعلیٰ کمان اس حقیقت سے واقف ہونے کے علاوہ 2018 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے بھی باخبرہے، اس لیے اس نے شیوراج سنگھ چوہان کے چہرے پر الیکشن لڑکر کوئی خطرہ مول لینے کی بجائے 2017 میں اتر پردیش میں آزمائی گئی حکمت عملی کو 2023 میں مدھیہ پردیش میں دہرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ صوبے میںاقتدار برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی نے ایک اور بڑا داؤ چلا ہے۔ اس نے3 مرکزی وزرا نریندر سنگھ تومر(دیمنی)، پرہلاد پٹیل(نرسنگھ پور) اور پھگن سنگھ کلستے کو درج فہرست قبائل نشست سے ٹکٹ دینے اور قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ (اندور) کے علاوہ 4 ارکان پارلیمان راکیش سنگھ (جبل پور مغرب)، گنیش سنگھ(ستنا)، ریتی پاٹھک (سدھی) اور راؤ ادے پرتاپ سنگھ (گڈرواڑا) کو چناؤ میدان میں اتار کر صاف کر دیا کہ وہ مدھیہ پردیش میں آسانی سے شکست ماننے والی نہیں ہے۔ ایم پی میں ایسا ہونے کی ایک دیگر وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بی جے پی کے ذریعے کمل ناتھ سرکار گرانے کے بعد عوام میں پارٹی کے لیے کسی قدر ہمدردی اور نرم گوشہ ہے۔ مدھیہ پردیش میں بظاہر کانگریس کی پوزیشن بہت اچھی دکھائی دے رہی ہے۔ آدھی آبادی کو رجھانے کے لیے پرینکا گاندھی نے اپنے دوروں اور انتخابی جلسوں میں شرکت تیز کر دی ہے۔ خواتین ان کی بات کو سن بھی رہی ہیں۔ او بی سی اور چھوٹے موٹے کام کرنے والوں کی نبض راہل گاندھی ٹٹول رہے ہیں۔کرناٹک کی طرح مدھیہ پردیش کے لیے جو ’وچن پتر‘ پیش کیا گیا ہے، اس میں 25 لاکھ روپے کا صحت بیمہ،او بی سی کے لیے27 فیصد ریزرویشن، کسانوں کے 2 لاکھ روپے تک کی قرض معافی، ناری سمان ندھی کے تحت 1500 روپے ماہانہ، گھریلو گیس سلنڈ ر کی قیمت 500 روپے، اندرا گرہ جیوتی یوجنا کے تحت 100 یونٹ بجلی مفت اور200 یونٹ کی نصف شرح، ملازمین کے لیے پرانی پنشن اسکیم 2005 کا نفاذ، نوجوانوں کو1500روپے سے 3000 روپے تک بے روزگاری الاؤنس،کسانوں کو آبپاشی کے لیے 5 ہارس پاور تک مفت بجلی اور بقایا بل کی معافی وغیرہ شامل ہیں۔ فتحیابی پر ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا وعدہ کانگریس کا پلس پوائنٹ ہے۔
مدھیہ پردیش میں 230 نشستوں کے لیے ایک ہی مرحلے میں 17 نومبر کو الیکشن ہونے ہیں۔ ان میں 35 درج فہرست ذات(ایس سی) اور 47 درج فہرست قبائل(ایس ٹی) کے لیے ریزرو ہیں۔ 116 سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت کو صوبے میں حکومت تشکیل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ صوبے میں اس وقت کل 5,61,36,229 رائے دہندگان ہیں ۔ ان میں75,304سروس ووٹرس اور 5,60,60,925 عام رائے دہندگان ہیں۔ مرد رائے دہندگان کی تعداد 2,88,25,607 اور خواتین کی تعداد2,72,33,945 ہے۔ ان کے علاوہ 1373 تیسری جنس کے ووٹرس بھی ہیں۔ صوبے میں 11,29,513 ووٹرس 18-19 برس کے ہیں جنہیں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔ 5,05,146 ووٹرس معذور، 6,53,640 عمر رسیدہ شہری ہیں۔ انتخابا ت کے لیے 64,523 پولنگ اسٹیشن بنائے جائیں گے جو گزشتہ الیکشن سے 844 کم ہیں۔ 2018 میں ان کی تعداد 65,367 تھی۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے انتخابات کے نتائج سے بھلے ہی قومی الیکشن کے نتیجوں کو متاثر نہ کرتے ہوں لیکن کانگریس کی جانب سے مہنگائی،بے روزگاری، بدعنوانی، قانونی نظم اور محروم طبقے کے خلاف مظالم جیسے مسائل ضرور زورشور سے اٹھائے جائیں گے۔ دوسری جانب بی جے پی ہندوتو کے ایشو اور ترقیاتی نعرے کے علاوہ ریاست کی نقد اسکیموںکے ساتھ مرکزی اسکیموں کا سہارا لے رہی ہے۔ دوسری جانب او بی سی ووٹروں کو اپنے خیمے میں کرنے کی کوشش کے بعد 3 دسمبر کو آنے والے عوام کے فیصلے سے این ڈی اے کے رہنما وزیراعظم نریندر مودی اور انڈیا کے لیڈر راہل گاندھی کے سیاسی قد کاپتہ بھی چل جائے گا۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS