اسمبلی انتخابات کے نتائج

0

5ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں سے 4کے نتائج آگئے۔ 4ریاستوں میں سے 3میں بی جے پی کی جیت ہوئی، جبکہ ایک میں کانگریس کی۔بی جے پی نے 2ریاستیں چھتیس گڑھ اور راجستھان کانگریس سے چھین لی اورمدھیہ پردیش میں اپنی رہی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے، جبکہ کانگریس نے 2ریاستوں میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد نئی ریاست تلنگانہ میں بڑی جیت حاصل کی ہے ۔اس طرح 2قومی پارٹیوں بی جے پی اورکانگریس کی جیت ہوئی اور ایک علاقائی پارٹی جو تلنگانہ میں 2میعاد سے اقتدار میں تھی، اس بار اس کے ہاتھوں سے حکومت چلی گئی۔مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں علاقائی اورچھوٹی پارٹیوں کا صفایا ہوگیا، البتہ راجستھان اورتلنگانہ میں چھوٹی پارٹیاں ابھی بھی قومی پارٹیوں کیلئے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ بی جے پی نے نہ صرف 3ریاستوں میں کامیابی کا پرچم لہرایا،بلکہ تلنگانہ میں بھی خلاف توقع اپنی سیٹیں بڑھاکر کانگریس، بی آر ایس اورآل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ مجموعی طورپر دیکھاجائے تو 4ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ساتھ ساتھ علاقائی پارٹیوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ راجستھان کے نتائج حسب روایت آئے ہیں۔ وہاں ہر 5سال بعد حکومت بدلنے کی پرانی روایت چلی آرہی ہے ۔اس بار بھی وہی ہوا ، پچھلی بار بی جے پی اقتدار سے باہر ہوئی تھی اورکانگریس کی حکومت بنی تھی اور اس بار کانگریس کی ہار ہوئی اوربی جے پی نے جیت حاصل کی ہے، حالانکہ کانگریس کو امیدتھی کہ وہ ٹکر دے گی اور آسانی سے نہیں ہارے گی۔ سیٹوں کے لحاظ سے ہارجیت میں بہت زیادہ فرق رہا۔ حیرت ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیلئے 12سیٹیں مانگنے والی سماجوادی پارٹی کہیں بھی مقابلہ میں نظر نہیں آئی ۔
اسمبلی انتخابات میں حکومت مخالف لہر کی بات مدھیہ پردیش اورتلنگانہ میں کہی جارہی تھی ،اس کا فائدہ کانگریس نے تلنگانہ میں تو اٹھایا ، لیکن مدھیہ پردیش میں وہ پچھلی بار کی جیت دہرانے میں ناکام رہی ۔سب سے حیرت انگیز نتائج چھتیس گڑھ کے آئے، جہاں کسی طرح کی حکومت مخالف لہر کی بات نہیں کہی جارہی تھی، ایگزٹ پول میں بھی بھوپیش بگھیل کی حکومت برقرار رہنے کے اندازے لگائے گئے تھے اورکانگریس بھی سمجھ رہی تھی کہ اس کی حکومت بچ جائے گی ۔جب ووٹوں کی گنتی ہوئی تو پتہ چلاکہ بھوپیش بگھیل کے پیروں تلے سے زمین کھسک چکی ہے اوربی جے پی کی جیت ہوئی ہے۔ 3ریاستوں میں کانگریس کی شکست کے بارے میں یہ کہا جائے توغلط نہیں ہوگا کہ حدسے زیادہ خوداعتمادی پارٹی کولے ڈوبی ہے۔جس طرح بی جے پی نے زمین پر محنت کی، ایک ایک حلقہ کے ذمہ داری ممبران پارلیمنٹ اورسینئرلیڈروں کو سونپی اور پارٹی کے بڑے لیڈروں نے پرزور مہم چلائی، بی جے پی کی یہ حکمت عملی رنگ لائی ۔اس کی باتوں اوروعدوں پر لوگوں نے بھروسہ کیا اورکانگریس کے وعدوں کو نظرانداز کیا۔ ایک تو کانگریس بہت دیر سے میدان میں اتری اوربی جے پی کی طرح تمام لیڈروں کو انتخابی مہم میں نہیں لگایا ۔انتخابات میں ہارجیت صرف اسٹارپرچارکوں کی تقریروں ، ریلیوں یا روڈ شو سے نہیں ہوتی، بلکہ زمین اوربوتھوں پر کتنے لوگ کتنااورکس طرح کام کررہے ہیں، اس کا بہت بڑارول ہوتا ہے۔ کانگریس اس معاملہ میں بی جے پی سے پیچھے رہ جاتی ہے ، جس کا خمیازہ اسے نتائج کی صورت میں بھگتناپڑتاہے۔ماضی میں بھی یہی ہوا اوراس بار بھی۔ کانگریس کواس سے سیکھنے اورانتخابا ت کیلئے کچھ نئی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔تب ہی پارٹی آگے کچھ اچھا کرسکتی ہے ۔
جس طرح کانگریس کو کرناٹک اورہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملی تھی، اسے وہ راجستھان ، مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں دہرانہیں سکی۔ ضرور اس کی حکمت عملی اور انتخابی مہم میں کوئی کمی رہی ہوگی ۔5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کافی اہمیت کے حامل ہیں ۔اسمبلی انتخابات کو 4 ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل سیمی فائنل کہا جارہاہے، کیونکہ پارلیمانی انتخابات کیلئے بہت حد تک ان ہی کے نتائج سے فضا ہموارہوگی ۔ ایسے وقت میں کانگریس کی خراب کارکردگی آئندہ اس کیلئے نقصان دہ اوربی جے پی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابات میں ہارجیت ہوتی رہتی ہے، لیکن چاروں ریاستوں میں بی جے پی کی اچھی کارکردگی سے دیگرریاستوں میںبھی اپوزیشن پارٹیوںکے کان ضرورکھڑے ہوں گے اوران کو پارلیمانی انتخابات کیلئے کچھ زیادہ ہی تیاریاں کرنی ہوںگی ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS