شمال مشرق کی3ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج تقریباً آچکے ہیں۔تریپورہ میں جیسا کہ امکان تھا بھارتیہ جنتاپارٹی مکمل اکثریت حاصل کرکے ایک بار پھر حکومت بنانے والی ہے جب کہ ناگالینڈ میں بی جے پی نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں ڈیموکریٹک پروگریسوپارٹی(ڈی پی پی) کے ساتھ اتحاد میں حکومت سازی کی دہلیز پر ہے لیکن میگھالیہ میں بی جے پی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے۔مشر ق کا اسکاٹ لینڈ کہی جانے والی اس ریاست میں بی جے پی کو صرف تین سیٹیں ملی ہیں یہاں نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) سب سے زیادہ25سیٹوں پرآگے ہے جب کہ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں21سیٹیں حاصل کرنے والی کانگریس فقط پانچ سیٹوں پر سمٹ آئی ہے۔یہاں ترنمول کانگریس نے 5سیٹیں حاصل کی ہیں۔یادرہے کہ گزشتہ سال نومبر میں سابق وزیراعلیٰ مکل سنگما کی قیادت میں کانگریس کے 12 ایم ایل اے ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے تھے اور اس اسمبلی انتخاب میں انہوں نے ہی ترنمول کانگریس کیلئے کام کیا جس کی وجہ سے میگھالیہ میں ترنمول کانگریس پانچ سیٹوں کے ساتھ اپنا کھاتہ کھولنے میں کامیاب ہوئی۔لیکن تریپورہ جہاں ترنمول حکومت سازی کا دعویٰ کررہی تھی، وہاں اس نے کوئی سیٹ حاصل نہیں کی اور بی جے پی کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتے ہوئے لیفٹ- کانگریس اتحاد کے ووٹ کاٹنے میں کامیاب ہوگئی۔ نتائج اور رجحانات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ترنمول کانگریس تریپورہ میں کم و بیش ڈیڑھ درجن سیٹوں پر بی جے پی کی جیت کا سبب بنی۔ان ہی سطور میں چند ہفتے قبل اس خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیاتھا کہ 60رکنی اسمبلی کیلئے تریپورہ میں صرف28سیٹوں پر امیدوار دے کر ترنمول کانگریس کی حکومت سازی کا دعویٰ اور ووٹروں کو مفت کی اسکیموں میں الجھانا در اصل بایاں محاذ اور کانگریس اتحاد کاووٹ کاٹ کر بی جے پی کی راہ ہموار کرنا ہے اور وہی آج برسرزمین نظر بھی آرہا ہے۔ تریپورہ میں ترنمول کوکل ووٹوں کے0.88فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں بظاہر یہ تناسب انتہائی معمولی نظرآرہاہے لیکن اسی تناسب کی وجہ سے ڈیڑھ درجن سیٹوں پر بایاں محاذ اور کانگریس کو چند سوووٹ کے فرق سے ہارنا پڑا ہے۔
ادھر 6ریاستوں کے مختلف اسمبلی حلقوں میں ہوئے ضمنی انتخاب کے نتائج ملے جلے رہے ہیں۔ بعض حلقوں میں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ حکمراں جماعت چاروں خانے چت ہوگئی ہے اور اپوزیشن پارٹیوں نے کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ ان حلقوں میں مغربی بنگال کے مرشدآباد ضلع کا ساگر دیگھی اسمبلی حلقہ ہے جہاں حکمراں ترنمول کانگریس کو بایاں محاذکے حمایت یافتہ کانگریس کے امیدوار کے ہاتھوں بری طرح شکست ہوئی ہے۔پہلے یہ سیٹ ترنمول کے قبضہ میں تھی اور یہاں سے ممتا حکومت میں وزیر سبرتو ساہا ایم ایل اے تھے۔ ان کی وفات کے بعد یہاں ضمنی انتخاب ہوا اور کانگریس نے یہ سیٹ 20ہزار سے زائد ووٹوں کے بھاری فرق سے جیت لی۔اسی طرح مہاراشٹر کی دو سیٹوں پر بی جے پی امیدواروں کو کانگریس کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔کچھ ایسے ہی ملے جلے نتائج تمل ناڈو اور جھارکھنڈمیں رہے ہیں۔
سب سے ناقص کارکردگی کانگریس کی رہی ہے۔ تریپورہ میں بایاں محاذ کے ساتھ غیر رسمی اتحاد کے باوجود اسے صرف 3سیٹیں ملی ہیں جب کہ ناگالینڈ سے اس قومی پارٹی کا مکمل صفایا ہوگیا ہے۔ میگھالیہ میںجہاں2018میں کانگریس 20سیٹیں حاصل کرکے سب سے بڑی پارٹی بنی تھی، اسے صرف5سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا ہے اوراس کا ووٹ تناسب پہلے سے بھی گھٹ کر13.17فیصد رہ گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں ریاست کی سیاست میں نووارد ترنمول کانگریس کو 13.79فیصد ووٹ ملے ہیں۔امکان یہ تھا کہ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑویاترا ‘کے اثرات ان اسمبلی انتخابات پر پڑیں گے، جس طرح کشمیر سے کنیاکماری تک بھارت جوڑو یاترا کی پذیرائی ہورہی تھی اس سے یہ محسوس بھی ہونے لگاتھا کہ اس کا مثبت اثر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر پڑے گا اور کانگریس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور ووٹوں کے تناسب میں بھی اضافہ ہوگا لیکن نتائج بتارہے ہیں کانگریس بھارت جوڑو یاترا سے پہلے جہاں کھڑی تھی، آج بھی وہیں ہے بلکہ بعض مقامات پر تو اسے کئی قدم پیچھے کی جانب بھی لوٹ جانا پڑا ہے۔میگھالیہ، تریپورہ اور ناگالینڈ اس کی مثالیں ہیں۔یہ نتائج دیکھ کر ایسا نہیں لگتا ہے کہ 2024کے پارلیمانی انتخاب میں کانگریس اکیلے حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کو کوئی بہت بڑا چیلنج پیش کرسکتی ہے۔
[email protected]
اسمبلی انتخابات کے نتائج
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS