ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ہمارے ملک میں دو صوبوں کے درمیان سرحد یا قدرتی معدنیات و دیگر وسائل کو لے کر تنازعات کوئی نئی چیز نہیں ہے۔1956میں سرحد کو لے کر داخلی تنازعات کرناٹک اور مہاراشٹر کے مابین بھی ہوئے، پھر تمل ناڈو اور کیرالہ کے درمیان ندی کے پانی کو لے کر مسائل کھڑے ہوئے، دہلی اور ہریانہ کے درمیان یا دیگر صوبوں کے آپسی اختلافات یا تنازع ہمارے ملک میں ہوتے رہے ہیں، ان تنازعات کو حکومتیں کبھی آپس میں اور کبھی عدالت عالیہ میں حل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، تاہم 26 جولائی کو آسام اور میزورم کے مابین سرحدی تنازع نے جس طرح خونریزی کی شکل اختیار کرلی ہے وہ ہمارے ملک کے لیے تشویشناک ہے، جب کہ ایک روز پہلے ہی25جولائی کو مرکزی وزیرداخلہ نے شیلانگ میں نارتھ ایسٹ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ میں ان تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم اس میٹنگ کے اگلے ہی دن کئی افراد کو آپسی گولی باری میں جان گنوانی پڑی جس میں پانچ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
آسام ہمارے ملک کا ایک صوبہ ہے۔ آسام کے وزیراعلیٰ کے حالیہ بیانات پورے ملک کے لیے یقینا چونکا دینے والے ہیں۔ پہلے تو آسام میزورم کے سرحدی علاقوں میں کمانڈو بٹالین کی تعیناتی کے ساتھ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کی بات کہی گئی تھی، وہیں تازہ بیان میں آسام کے شہریوں کو میزورم جانے سے روکتے ہوئے ان کی جان کو خطرہ بتایا ہے، ان بیانات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کے حالات بن چکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی صوبے ہمارے ملک کا ہی حصہ ہیں۔ آسام کے وزیراعلیٰ کے بیانات کے مطابق آسام کی سرحد کے اندر میزورم کے شہریوں نے حملہ کیا ہے جس کی تفتیش آسام پولیس کرے گی کہ آخر شہریوں کے پاس جدید آٹومیٹک ہتھیار کہاں سے آئے؟ یقینا ہر شہری کے ذہن و دماغ میں یہ سوال آنا فطری ہے کہ کیا ہمارے ملک میں یہ کسی خانہ جنگی کی شروعات تو نہیں؟ ضروری ہے کہ اس تنازع کی تاریخ اور اسباب پر روشنی ڈالی جائے۔
دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع پر مسائل کا پیدا ہونا تو انسانی ذہن و دماغ قبول کرسکتا ہے، دو پڑوسی ملکوں کے مابین سرحد پر گولی باری یا خونیں جھڑپیں تو ممکن ہوسکتی ہیں لیکن ہمارے ملک کی سرحدوں کے اندر ایک صوبے کے پڑوسی صوبوں کے ساتھ سرحدی علاقوں پرخونیں تصادم کی تاریخ نہیں ملتی۔ یہ خونیں تصادم ہمارے ملک کی سلامتی و اتحاد کے لیے یقینا ایک سوالیہ نشان ہے۔
ہمارے ملک کا نارتھ ایسٹ علاقہ آسام، منی پور، تریپورہ، میگھالیہ، ناگالینڈ، میزورم اور اروناچل پردیش کے صوبوں پر محیط ہے۔ یہ پورا علاقہ اور اس علاقے کے تمام ہی صوبے اپنی علیحدہ تہذیب و تمدن، مذہب اور زبان کے ساتھ علاقائی انفرادی شناخت کے حامل قبائل و گروہ کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ ان تمام ہی علاقوں کے باہمی تنازعات ہیں اور ان تنازعات میں بنیادی سبب سرحدی علاقوں میں زمین کی منظم نشاندہی کا موجود نہ ہونا ہے، وہیں قدرتی معدنیات، خانہ جنگی اور مسلح شدت پسند گروہوں کا موجود ہونا اور تہذیبی شناخت کا آپسی تصادم بھی اہم اسباب میں شامل ہیں جو صوبوں کے آپسی تنازع کو مزید متشدد بنا دیتے ہیں۔ نارتھ ایسٹ کا یہ پورا علاقہ ہمارے ملک سے ایک سیلی گوڑی کی تنگ راہداری(کوریڈور) سے جڑتا ہے، جس کو چکن نک (مرغ کی گردن) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جب کہ چین کی سرحد سے متصل ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔
آسام صوبے سے ہی الگ ہوکر1963میں ناگالینڈ صوبہ بنا، پھر1972 میں آسام سے کٹ کو میگھالیہ اور میزورم کے دو الگ الگ حصے بنائے گئے، پہلے تو میزورم مرکز کے ماتحت ریاست بنی تاہم1987میں ایک مکمل صوبہ کا درجہ دے دیا گیا، لیکن ان تمام ہی صوبوں کی سرحدوں کو باقاعدہ نشاندہی کے ساتھ واضح نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ ان صوبوں کا آسام سے کبھی کسی ندی یا نالے تو کبھی کسی پہاڑ کو لے کر تنازع ہوتا رہتا ہے۔ آسام اور میزورم کی درمیانی سرحد تقریباً165کلومیٹر وسیع ہے جو آسام کے کریم نگر، کچھار اور ہالا کانڈی کے اضلاع سے متصل ہے۔ آسام اور میزورم کے درمیان تنازع کا سبب 1875اور1933کے دو نوٹیفیکیشن بھی ہیں جو کہ کچھار اور لوشائی کی پہاڑیوں کے معاملہ میں سرحد کو متنازع کرتے ہیں۔ 1972سے یہ تنازع شروع ہوا جو2020میں تشدد کی شکل اختیار کرگیا، اکتوبر 2020میں لیلاپور آسام میں کچھ آسامیوں نے میزورم پولیس پر پتھربازی کی جس کے بعد میزورم کے شہریوں نے جمع ہوکر پتھر بازی سے جواب دیا، مرکزی حکومت کی دخل اندازی کے بعد حالات قابو میں آئے۔ آسام اور میزورم کے اعلیٰ افسران ایک میٹنگ میں سرحدی علاقوں کو موجودہ صورتحال میں ہی قبول کرنے پر رضامند ہوگئے، لیکن حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات نے دونوں صوبوں کے درمیان ایک بار پھرسرحدی تنازع کو بے قابو کردیا ہے۔ میزورم حکومت کا الزام ہے کہ آسام پولیس نے میزورم کے علاقے میں گھس کر پہلے سی آرپی ایف اور میزورم پولیس کی چوکیوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد میزورم کی طرف سے جوابی کارروائی ہوئی تھی۔
آسام کا اروناچل پردیش سے سرحد کو لے کر 1992 میں تنازع شروع ہوا تھا۔ اروناچل پردیش حکومت نے آسام حکومت کے اوپر الزام لگایا تھا کہ آسام نے ان کے علاقوں میں قبضہ کرکے تعمیراتی کام کیے ہیں نیز اروناچل کی سرکاری و رہائشی عمارتوں کو آگ زنی کا نشانہ بنایا ہے۔ 2005 اور2007میں بھی آسام اور اروناچل پردیش کے بیچ تنازعات ہوئے،2005میں آسام حکومت کے افسران نے اروناچل پردیش میں تقریباً100گھروں کو زمین دوز کردیا تھا، جب کہ2007میں دونوں طرف سے گولیاں بھی چلی تھیں جس میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
آسام حکومت کا میگھالیہ حکومت کے ساتھ بھی سرحدی تنازع ہے۔1972 میں میگھالیہ کو آسام سے الگ کیا گیا جس کے بعد میگھالیہ کی راجدھانی شیلانگ سے دیشپور منتقل ہوگئی۔ آسام کے ضلع کامروپ کی سرحد ضلع لانگپیہہ سے متصل ہے جو کہ ویسٹ گارو پہاڑیوں پر واقع ہے۔ اس سرحد کے علاقوں کو لے کر آسام اور میگھالیہ کا تنازع ہوتا رہتا ہے۔2010 میں ہونے والے تصادم میں4افراد کی جان گئی تھی، وہیں26افراد زخمی ہوئے تھے۔2018میں دوبارہ مقامی باشندوں اور آسام پولیس میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔
ناگالینڈ بھی1963سے پہلے آسام صوبہ کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا۔1963میں ناگالینڈ کو الگ صوبہ کا درجہ دے دیا گیا، جس کے بعد سے ہی ناگالینڈ اور آسام کے مابین بھی سرحدی علاقوں کو لے کر تنازع چل رہاہے۔1965میں پہلی بار اس تنازع نے تشدد کی شکل اختیار کرلی، جس میں فصلوں کو جلانے، اغوااور قتل کی متعدد وارداتیں ہوئیں۔1979میں چونگاجن کے علاقے میں خونریز جھڑپیں ہوئیں جس میں55افراد کے قتل کے علاوہ تقریباً 467گھروں کو منہدم کردیا گیا۔1985میں میراپانی علاقے میں پولیس سے جھڑپوں کے دوران32افراد کی موت اور50سے زائد افراد زخمی ہوئے جب کہ رپورٹوں کے مطابق25ہزار سے زائد افراد اپنے گاؤں چھوڑ کر بھاگنے کے لیے مجبور ہوگئے، ابھی تک آسام اور ناگالینڈ کے درمیان سرحدی تنازع ختم نہیں ہوسکا ہے۔
دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع پر مسائل کا پیدا ہونا تو انسانی ذہن و دماغ قبول کرسکتا ہے، دو پڑوسی ملکوں کے مابین سرحد پر گولی باری یا خونیں جھڑپیں تو ممکن ہوسکتی ہیں لیکن ہمارے ملک کی سرحدوں کے اندر ایک صوبے کے پڑوسی صوبوں کے ساتھ سرحدی علاقوں پرخونیں تصادم کی تاریخ نہیں ملتی۔ یہ خونیں تصادم ہمارے ملک کی سلامتی و اتحاد کے لیے یقینا ایک سوالیہ نشان ہے، وہ بھی ایک ایسے جغرافیائی محل وقوع پر جہاں چین جیسا طاقتور ملک ہماری سرحدوں پر نظریں جمائے بیٹھا ہو۔ نارتھ ایسٹ کے علاقوں میں خانہ جنگی اور ہتھیار بند مسلح گروپ و قبائل بھی موجود ہیں، ان نازک حالات میں سپریم کورٹ کو اپنی دستوری ذمہ داری پوری ایمانداری کے ساتھ ادا کرتے ہوئے صوبوں کے درمیان ہونے والے اس مسلح تصادم و تنازع کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پرعملی اقدامات کرنے چاہیے۔ صرف آسام کی سرحدوں کو باقاعدہ منظم کرنے سے پورے نارتھ ایسٹ علاقے کے سرحدی تنازعات ختم ہوسکتے ہیں۔ تنازعات کا نصف صدی سے خونریزی کی شکل اختیار کرنے کے باوجود باقی رہنا کسی بھی ملک کی سلامتی و تحفظ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
[email protected]