آسام حکومت کا فیصلہ مسلم دشمنی: بدرالدین اجمل

0

نئی دہلی (ایس این بی): آسام کی موجودہ بی جے پی سرکار نے ریاست کے 1282 سرکاری امداد یافتہ مدارس کو باضابطہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ اسکول میں تبدیل کردیا ہے جس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر، رکن پارلیمنٹ اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدرمولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ یہ سراسر ناانصافی اور تانا شاہی ہے۔ دراصل موجودہ ریاستی سرکار مسلم دشمنی میں یہ سب فیصلہ لے رہی ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کو پریشان کرنا چاہتی ہے۔

اس سلسلے میں مولانا بد رالدین اجمل نے کہا کہ سرکار نے یہ دلیل دی تھی کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم دینا درست نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مدارس میں مذہب سے متعلق صرف 2 سبجیکٹ پڑھا ئے جار ہے تھے باقی تمام مضامین جیسے سائنس، انگلش، میتھ، آرٹ، لینگویج وغیرہ سب وہ تھے جو سرکاری اسکول میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اور یہ سلیبس خود سرکاری طور پر تیار کردہ اور منظور شدہ تھا جو برسوں سے ان مدارس میں پڑھایا جاتا تھا۔

مولانا بد رالدین اجمل نے کہا کہ ایک طرف سرکار یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ مسلمان بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتی ہے مگر دوسری طرف ان کے تعلیمی ادارہ کو بند کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آسام کی سرکار نے 2020 میں اسمبلی میں ایک قانون پاس کرکے یہ حکم جاری کیا تھا کہ جو بھی مدارس سرکاری امداد یافتہ ہیں ہم انہیں بند کر دیں گے اور ان کی بلڈنگ کو اسکول میں تبدیل کردیں گے جس پرہم لوگوں نے اعتراض درج کرایا تھا اور اس فیصلہ کے خلاف وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزیر سے بھی مل کر اس فیصلہ کو بدلنے کی اپیل کی تھی۔

مولانا اجمل نے کہا کہ سرکار کے اس فیصلے کے خلاف ہماری تنظیم نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں مقدمہ فائل کیا تھا اور پھر سپریم کورٹ میں پی آئی ایل بھی دائر کی ہے جو ابھی پنڈنگ ہے مگر موجودہ ریاستی سرکا رنے اپنی تانا شاہی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو عملی جامہ پہنا دیا۔

انہوں نے کہا کہ ان مدارس میں صرف اساتذہ کی تنخواہ سرکار کی جانب سے ادا کی جاتی تھی جو ماضی میں ریاستی سرکار کے ذریعہ بنائے گئے قانون کے تحت تھا مگر موجودہ سرکار نے نئے قانون کے ذریعہ ان سب کو بے اثر کر دیا۔ یہ بات واضح رہے کہ مدارس میں زمین خود مسلمانوں نے وقف کیا تھا اور وہاں کی عمارت بھی مسلمانوں کے چندہ سے بنی تھیں، اس لئے سرکار کا ان مدارس کی زمین اور عمارت پر قبضہ کرکے اپنی تحویل میں لینا ظلم ہے۔

مولانا اجمل نے کہا کہ سرکار کے اس فیصلہ سے ہزاروں مسلمان اساتذہ بے روزگار ہو گئے اور آئندہ کے لئے بھی مسلمان نوجوانوں سے روزگار کے یہ مواقع چھین لئے گئے۔

مزید پڑھیں: کرناٹک میں ڈنر کی سیاست سے بی جے پی کی پریشانی میں اضافہ

انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین میں مسلمانوں کو اپنا ادارہ قائم کرنے اور مذہبی تعلیم دینے حاصل کرنے کی مکمل آزادی دی ہے اس لئے آسام سرکار کا یہ قدم غیر آئینی ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ ہم لوگ اس کے خلاف سیاسی، سماجی اور قانونی ہر طرح کی لڑائی لڑیں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS