اسلم رحمانی
ملک کا عام شہری معاشی نابرابری کی گہری کھائی میں پھنس گیا ہے اور ملک کی اکثر دولت چند مخصوص لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔بھارت کی ایک فیصد اشرافیہ ملک کی 40 فیصد سے زائد دولت کی مالک ہے جب کہ غریب مزید غربت کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔انسداد غربت کے لیے کام کرنے والے برطانوی ادارے آکسفیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں جہاں امیر ترین افراد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں غریب عوام مزید غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔جس ملک میں 16,091 لوگ دیوالیہ ہوں یا قرض میں ڈوبے ہوں اور9,140 لوگ بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوں، اس ملک میں صرف 21 لوگوں کی دولت ملک کے 70 کروڑ لوگوں کی کل دولت سے زیادہ ہے۔ یہ ’نیو انڈیا‘ کی تلخ حقیقت ہے۔ خودکشی کے یہ اعداد و شمار خود حکومت ہند کے ہیں اور معاشی عدم مساوات کے یہ اعداد و شمار آکسفیم کی تازہ ترین رپورٹ کے ہیں۔آکسفیم کی حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ کا نعرہ لگانے والے ملک کے لوگوں کے حالات شدید معاشی تفاوت کا شکار ہیں۔’آکسفیم‘ نامی این جی او دوسری جنگ عظیم کے دوران قائم ہوئی تھی جب اپریل 1941 میں یونان پر محوری طاقتوں کا قبضہ تھا۔ Axis Powers یعنی جرمنی اور اٹلی نے یونان میں زبردست لوٹ مار شروع کر دی۔ یونان میں جرمن نازی فوج کے حوصلے کو توڑنے کے لیے اتحادیوں نے یونان کا ہکا پانی کاٹ دیا اور رسد کی سپلائی بھی بند کر دی جس کے نتیجے میں یونان میں شدید قحط پڑا۔ اس خوفناک قحط میں تقریباً تین لاکھ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔صورت حال کے پیش نظر، آکسفورڈ، برطانیہ میں کچھ ماہرین تعلیم اور مخیر حضرات نے 5 اکتوبر 1942 کو آکسفورڈ کمیٹی فار فیمین ریلیف کے نام سے ایک این جی او قائم کی جو کہ ’آکسفیم‘بن گئی، قحط سے نجات اور یونان کو غذائی امداد کی بحالی کے لیے۔ ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔آکسفیم کا بین الاقوامی سکریٹریٹ نیروبی، کینیا میں واقع ہے۔ اس کا مقصد عالمی غربت اور ناانصافی کو کم کرنے کے لیے کام کی کارکردگی کو بڑھانا ہے۔ اس کی ایجنسیاں مختلف ممالک میں کام کرتی ہیں۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق ‘سروائیول آف دی ریچسٹ: دی انڈیا سٹوری’، جو سوئٹزرلینڈ کے ڈیووس میں منعقد ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم (WEF) میں پیش کی جائے گی – جہاں سال 2020 میں ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد 102 تھی، سال 2022 میں یہ تعداد 166 تک پہنچ گئی ہے۔ہندوستان کے 100 امیر ترین لوگوں کی دولت تقریباً 54 لاکھ 12 ہزار کروڑ روپے (660 بلین ڈالر) سے زیادہ ہے۔اگر آپ اس رقم کی وسعت کو آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کریں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کا پورا بجٹ 18 ماہ تک چلایا جاسکتا ہے۔اگر ہندوستانی ارب پتیوں کی کل دولت پر صرف 2 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے تو اس سے 40423 کروڑ روپے حاصل ہوں گے، جو اگلے تین سال تک غذائی قلت کے شکار بچوں کی تمام ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق ہندوستان جہاں دنیا کی تیز رفتار معیشت ہے وہیں وہ ایسا ملک بھی ہے جہاں عوام کے درمیان معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔سینئر اقتصادی تجزیہ کار جینتو رائے چودھری کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا روزگار ختم ہو ا۔ اگرچہ بڑے اور درمیانہ درجے کے تاجروں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن چھوٹے تاجروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔اسی دوران بڑے تاجروں نے وبا کے دوران بھی بہت پیسہ بنایا ہے۔آکسفیم کی رپورٹ میں معاشی عدم مساوات کی ایک وجہ ٹیکس کے نظام میں موجود خامیوں کو بھی قرار دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق امیروں کے مقابلے میں غریب زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ رواں سال غذائی اور غیر غذائی اشیا سے جو ٹیکس حاصل ہوا ہے اس کا 64.3 فی صد غریب اور متوسط طبقے سے جمع کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں انکم ٹیکس کی شرح آمدنی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے تحت بالواسطہ ٹیکس تمام افراد کے لیے یکسا ں ہوتا ہے خواہ ان کی کمائی کچھ بھی ہو۔صارفیت ٹیکس یعنی ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (ویٹ) پر بہت زیادہ انحصار عدم مساوات میں اضافہ کرتا ہے۔ اس میں غریبوں کو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ حکومت کو ٹیکس کی شکل میں دینا پڑتا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے بعد حکومت نے چھوٹی چھوٹی اشیا جیسے کہ ماچس، موم بتی، دودھ، بسکٹ وغیرہ پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ یہاں تک کہ روٹی پر بھی 18 فی صد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی میں معاشی امور کے پروفیسر ہمانشو کے مطابق ’ہندوستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی مذہب، زبان، ذات برادری اور علاقے کی بنیاد پر عوام بٹے ہوئے ہیں وہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق کا مزید بڑھ جانا انتہائی پریشان کن ہے۔ان کے مطابق ملک کے امیروں نے کرونی کیپٹلزم کے توسط سے ملک کی دولت کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کی دولت مزید بڑھتی جا رہی ہے جس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے۔، بشکریہ وائس آف امریکہ اگر ہم آکسفیم کی حالیہ رپورٹ کو سمجھیں تو ہندوستان کے 21 امیر ترین ارب پتیوں کے پاس اس وقت ملک کے 700 ملین لوگوں سے زیادہ اثاثے ہیں۔ملک کے اندر معاشی عدم مساوات کی خوفناک نوعیت کو آپ صرف ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر صرف گوتم اڈانی نے سال 2017 سے سال 2021 تک کمائے گئے ناقابل یقین منافع پر ایک دفعہ ٹیکس لگایا ہوتا تو پورے ملک کے پرائمری اسکولوں کی تعلیم ملک میں تقریباً 50 لاکھ اساتذہ کو ایک سال کی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 10 امیر ترین ہندوستانیوں کے کل اثاثے 27 لاکھ کروڑ روپے ہیں۔ یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ ہے۔ یہ اثاثہ صحت اور آیوش کی وزارتوں کے 30 سال کے بجٹ، وزارت تعلیم کے 26 سال کے بجٹ اور منریگا کے 38 سال کے بجٹ کے برابر ہے۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں ہندوستان کے صرف پانچ فیصد لوگوں کے پاس ملک کی کل دولت کا 62 فیصد حصہ تھا۔ 2012 سے 2021 کے درمیان ملک کی 40 فیصد دولت ملک کے ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی، جبکہ دوسری طرف صرف تین فیصد دولت نیچے کے 50 فیصد لوگوں کے ہاتھ میں آئی۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق 64 فیصد جی ایس ٹی (جی ایس ٹی) ملک کے 50 فیصد غریب لوگ ادا کر رہے ہیں جبکہ ارب پتیوں کے خزانے سے صرف 10 فیصد جی ایس ٹی آتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ملک کی مودی حکومت ان امیروں پر کتنی مہربان ہے، اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2020-21میں مرکزی حکومت نے 1 لاکھ کروڑ سے زیادہ کی ٹیکس چھوٹ دی ہے۔ ملک کے کارپوریٹ گھرانوں کو۔ یہ ٹیکس چھوٹ منریگا کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ اور بھی بہت سے اعداد و شمار ہیں۔
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ’سوشلزم‘ کا ہدف، تمہید میں درج مثالی عنصر، جسے آئین کا تعارفی بیان کہا جاتا ہے، اب محض ایک خیالی خواب بن کر رہ گیا ہے۔ ملک میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج مسلسل گہری اور وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے، غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور شاہ صاحب بے خبر ’من کی بات‘کی پارٹی سجانے میں مصروف ہیں۔’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگانے والی مضبوط حکومت سرمایہ دارانہ مفادات کی خدمت کرنے والے چند صنعت کاروں کے ادارے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ ملک میں بے روزگاری اور بے روزگاری کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک میں بے روزگاری اور بے روزگاری کے مسئلے نے ایسی خوفناک شکل اختیار کر لی ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے خود راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ 2018-2020 کے درمیان 9140 لوگوں نے بے روزگاری کی وجہ سے اور 16 ہزار 91 لوگوں نے ملک میں خودکشی کی۔ملک میں امیروں کی تعداد بڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسی تناسب سے غریبوں کی تعداد میں بھی کمی ہونی چاہیے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو پر کیا جا سکتا ہے۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ پانچ کھرب کی معیشت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا ’وشوا گرو‘ نائیجیریا کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے غربت کے معاملے میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ پوری دنیا کی غریب آبادی کا سب سے زیادہ حصہ، 12.2% ہندوستان اور 12.2% نائیجیریا میں ہے۔ اور اس طرح ’نیو انڈیا‘ کو اب ’غربت کی راجدھانی‘ کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔
[email protected]
اسلم رحمانی : آکسفیم رپورٹ: ہندوستان میں عدم مساوات کی عکاس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS