عبدالسلام عاصم
’ہم عصری تعلیم کے ہرگز خلاف نہیں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کے بچے انجینئر، سائنس داں، قانون داں اور ڈاکٹر بنیں۔ اس ایک جملے کے کئی مفہوم نکالے جا سکتے ہیں۔ صحت مند سوچ رکھنے والے جہاں اس کا مطلب یہ نکالیں گے کہ ’جب آنکھ کھلی تب ہی سویرا…‘ وہیںجن کا کام صرف شوشے چھوڑنا ہے وہ کہیں گے کہ ’اچھا اب ہوش آیا ہے…‘اور جو قنوطیت پسند ہیں وہ یہ کہہ کر باب ہی بند کردیں گے کہ ’ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے…‘ وغیرہ۔
قوموں کی زندگی میں ایسے کئی موڑ آتے ہیں جہاں سے وہ دائیں یا بائیں مڑ جاتی ہیں یا اندیشوں کا سامنا کرتے ہوئے امکانات کے رخ پر آگے بڑھتی ہیں۔ یہ سبھی سمتیں اُنہیں اچھے، برے دونوں طرح کے تجربات سے گزارتی ہیں۔ ملت اسلامیہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف تجربات سے گزر رہی ہے۔ کہیں وہ آزمائشوں کی رات کے پچھلے پہر میں ہے، کہیں نصف شب میں اُسے گو مگو کی کیفیت کا سامنا ہے تو کہیں جاگنے سے مسلسل انکار نے اُسے ایک ایسے بے نور سحر سے دوچار کر دیا ہے کہ وہ قطعیت کے ساتھ کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پارہی ہے کہ اِسی کو تقدیر مان لیا جائے یا پھر کسی تدبیر سے کام لیا جائے۔
دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جسے سماجی،سیاسی، علمی اور تہذیبی ارتقا کے سفر میں رجعت پسند نظریات کا کاروبار کرنے والوں کا کبھی سامنا نہیں رہا۔ تقریباً تمام ترقی یافتہ اقوام اس آزمائش سے گزر چکی ہیں۔ صدیوں کی جد و جہد کے بعد اُنہیں الحمدللہ اس آزمائش سے نجات ملی۔ جنوبی ایشیائی خطے میں خاص طور پر بر صغیر میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا نظریاتی کاروبار کرنے والے بہر حال ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ملت کے خسارے سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا پائے ہیں جتنا وہ پاکستان اور غیر سرحدی ہمسائے افغانستان میں جھولیاں بھر بھر کر آج بھی اٹھا رہے ہیں۔ ہندوستانی مدارس کا غیر عصری انداز اگر چہ فی زمانہ ملت اسلامیہ ہند کے لئے دیگر اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا لیکن بنیادی طور پر اس سیکولر ملک کی کثرت میں وحدت والی تہذیب نے ملت کو کوئی ایسا نقصان نہیں ہونے دیا جس کے ازالے کی بھاری قیمت اُس طرح چکانا پڑتی جس طرح باقی دو مذکورہ سرحدی اور غیر سرحدی ہمسائے چکا رہے ہیں۔
باوجودیکہ ملک میں ان دنوں حجاب کا معاملہ کسی بیرونی سازش یا درونِ ملت تنگ آمد بہ جنگ آمد حلقوں کی وجہ سے بین تہذیب توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ وقار کا مسئلہ بنا کر ہم نے ملت کیلئے نقصان کا ہی سواد کیا ہے۔بعید نہیں کہ اس معاملے کا بے جا استحصال بھی ہوا ہو لیکن ہماری عدم ہوش مندی ہمیں کو نقصان پہنچا گئی ہے۔اگر ہم علم کی بنیاد پر دنیا دار ہوتے تو ہم ایسے مسائل میں اُلجھنے سے صاف بچ جاتے۔ کوئی کنارے پڑا ہوا چھوٹا موٹا حلقہ زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ ہونے سے انکار کرتا بھی تو چند نسلوں بعد وہ حلقہ از خودختم ہو جاتا اور سب ارتقا کے سفر کا اٹوٹ حصہ بن جاتے۔ ایران اسی راستے پر ہے جہاں 22سالہ مہسا امینی کی ہلاکت نے تبدیلی کے رُخ پر بیٹھ کر انتظار کرنے والوں کو بھی متحرک کر دیا ہے۔
جہاں تک مدارس کو رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگ کرنے کا سوال ہے تو یہ باتیں اہل مدارس کریں یا باہر سے اس طرح کی تجویز پیش کی جائے، دونوں صورتوں میں یہ کام عملاً ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرورہے کیونکہ مدارس میں درس و تدریس کا جو نظم ہے وہ سرِ دست سائنس کی تعلیم کیلئے پوری طرح سازگار نہیں۔ اِس کے لئے پہلے مدرسین کو اعتماد میں لے کر اُن پر یہ باور کرانا ہو گا کہ سائنس کی تعلیم کا بنیادی تعلق چونکہ دنیا داری سے ہے، لہٰذا اس سے حقیقی استفادہ کیلئے لئے طلبا میںسوال و جواب کا جذبہ اس حد تک پیدا کرنا ہوگا کہ وہ غیر سائنسی مدرسین سے بھی اسباق سمجھ کر پڑھنے اور ابہام سے باہر نکلنے کیلئے سوالات کرسکیں۔ بصورت دیگر وہ ذہنی خلجان کا شکار ہو کر نہ دین کے رہ پائیں گے نہ دنیا کے۔ ایسا نہیں کہ مدرسوں کے اساتذہ اور طلباسوچنا نہیں جانتے۔ اُنہیں بھی پتہ ہے کہ خواہ کسی کے پاس جتنی بھی تیز سواری ہو ، اگر اُس کا رُخ منزل کی طرف نہیں تو وہ منزل پر کبھی نہیں پہنچ سکے گا۔اس کے برعکس اگر تیز رفتار گاڑی کے بجائے سائیکل کے ذریعہ بھی کوئی آگے بڑھ رہا ہے اور اُس کا رُخ منزل کی طرف ہے تو ایک نہ ایک دن اُسے منزل مل ہی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کیلئے پہلا مکتب ہے لیکن اس مکتب کی کیا حالت ہے اِس پر زمانے سے پچھڑ کر رہ جانے والے ملی حلقوں میں شاید کبھی غور نہیں کیا گیا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ بظاہر پڑھ لکھ کر بھی ایک بڑا ملّی حلقہ معاشرے کی ترقی رُخی ضروریات کی تکمیل کا حصّہ نہیںبن سکا۔صبر اور توکل علی اللہ کے واضح مفہوم کی محدود تفہیم پر انحصار کرنے والوںنے کسی بدنیتی کے بغیر کیا نقصان پہنچایا ہے! اس کا اب فوری اور بڑے پیمانے پر اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ اظہر من الشمس ہے۔
ہمارے یہاں ایک اعتراض مخلوط تعلیم پر بھی کیا جاتا ہے۔وقت آگیاہے کہ اب اس طریقۂ تعلیم پر روایتی نظریاتی اتفاق و اختلاف سے ہٹ کر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ اگر دینی حلقے اِسے صرف بے ہنگم اختلاط کی شکل میں دیکھتے رہے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ حقیقی علمی تحقیقات کے مطابق مخلوط تعلیم ایک شخص میں فکر و نظر کی سطح پر اعتماد پیدا کرتی ہے اور اسے حقیقی دنیا میں رہنے کے لئے ایک ایسا مکمل فرد بناتی ہے جو صنفی فرق اور جنسی کشش کو خلط ملط کر کے نہیں دیکھتا۔ دوسری جانب غیر مخلوط یعنی ہم جنس ماحول میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں ایسی خود اعتمادی کی کمی رہ جاتی ہے۔ وہ صنفی فرق اور جنسی کشش کے دو الگ پیمانوں اور اُن کے جداگانہ اطلاق کو نہیں سمجھ پاتے ۔رہ گئی بات اخلاقی اور اسلامی اقدار کی تو یہ اقدار گھر پر قائم ہوتی ہیں جہاں کا ماحول صد فی صد مخلوط ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ اِن اقدار کو بہتر بنانے میں لڑکوں یا لڑکیوں کی الگ لاگ ہم جنس تعلیم کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔ واقعات اور سانحات کی بعض اخباری سرخیاں اس کی گواہ ہیں۔
خبروں کے مطابق اب مسلم ممالک تعلیم میں صنفی عدم مساوات سے باہر نکل رہے ہیں۔ترکی اسکول کی تعلیم میں صنفی فرق کو ختم کرنے کے بہت قریب پہنچ چکاہے۔کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین اور لیبیا میں سیکنڈری اسکولوںمیں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد اب زیادہ ہے اور پرائمری کے اندراج میں مکمل صنفی برابری آگئی ہے۔ اخباری دستاویزات کے مطابق جن دس ممالک میں بچوں کی اسکولی حاضری کی شرح بدترین ہے، ان میںسات مسلم ممالک ہیں ۔یہ ممالک نائیجیریا، پاکستان، ایتھوپیا، کوٹ ڈیوائر، برکینا فاسو، نائیجر اور یمن ہیں۔یہ وہ ممالک ہیں جو اکثر خواتین اور اسکولی طالبات کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کے لئے ہاٹ ا سپاٹ سمجھے جاتے ہیں۔
کامیابی کی بہت واضح کہانیاں عرب دنیا سے باہر ابھر رہی ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے مسلم ملک انڈونیشیا میں اسکولوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد اب یکساں بتائی جاتی ہے۔ ملیشیا میں اب لڑکے تعلیم کی تقریباً تمام سطحوں پر لڑکیوں سے بھی پیچھے ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کا منظرنامہ بھی کچھ ایسا ہی ہے جہاں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ ایسا نہیں کہ مسلم اکثریت والے اس مشرقی ہمسائے میں مذہبی قدامت پسندی اورغریبی نہیں۔لیکن نہ تو قدامت پسندی اور نہ ہی آمدنی کی کمی لڑکیوں کو اسکولوں سے دور رکھ سکتی ہے۔ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں بنگلہ دیش 75 ویں مقام کے ساتھ دوسرے مسلم اکثریتی ممالک جیسے سعودی عرب (127)، ایران (130) اور پاکستان (135) سے بہت آگے ہے۔
الحمدللہ اب ہمارے یہاں بھی ملت کے ایک سے زیادہ نوجوان حلقوں میں بیداری آرہی ہے اور اقوام عالم کے درمیان اپنی پوزیشن کا اندازہ لگا کر ایک سے زیادہ نوجوانان نے کروٹیں لینی شروع کر دی ہیں۔ گلوبلائزیشن اور اطلاعاتی تیکنالوجی کے انقلاب کے نتیجے میں موجودہ نئی نسل کوبہت سی باتوں کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے۔ خاندانی، مقامی ، علاقائی اور قومی طور پر ملی رہنمائی کا محاذ سنبھالنے کیلئے تیار نئی نسل کو پتہ چل چکا ہے کہ ’’دنیا داری ہی دین داری‘‘ ہے اور دنیا داری کے بغیر دوسروں کی دماغی محنت اور ایجادات پر عیش کرنا ایک ایسی ’’دنیا پرستی‘‘ ہے جو عیش کرنے والے کو شرک کا احساس بھی نہیں ہونے دیتی۔ ہم جب بھی دعا میں ربنا آتنا فی الدنیا۔۔۔ پڑھتے ہیں تو اُس میں پہلے دنیا کی ہی بھلائی چاہتے ہیں جو صرف عمل سے ممکن ہے ۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]