اروند کجریوال؛ ایک تیر سے کئی شکار: عبدالعزیز

0

عبدالعزیز

اروند کجریوال راہل گاندھی کے بعد اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر اور ان کی ’عام آدمی پارٹی‘ سب سے تیزی سے مقبول ہونے والی پارٹی ہے۔ اروند کجریوال کی پارٹی کی حکومت دو ریاستوں دہلی اور پنجاب میں ہے۔ کجریوال کی سیاسی قیادت کا عروج اور عام آدمی پارٹی کی حکومت کا قیام جس قدر کم مدت میں ہوا وہ ہندستان کے کسی قائد یا سیاسی پارٹی کا نہیں ہوا۔ اروند کجریوال انکم ٹیکس کمشنر تھے۔چند سالوں میں ہی اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے کر دس سال تک دہلی کی جھونپڑپٹیوں میں فلاحی کام کرتے رہے۔ دہلی کے غریبوں اور کمزوروں کے دکھ درد میں کام آتے رہے۔
اروند کجریوال کی شہرت دہلی میں اس وقت عروج پر ہوگئی جب وہ بدعنوانی کے خلاف انّا ہزارے کی تحریک کے روح رواں کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ان کی اس تحریک کے پیچھے آر ایس ایس اور بی جے پی کا ہاتھ تھا۔ بدعنوانی کے خلاف اور بدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے یہ سب سے بڑی تحریک تھی جو آناً فاناً ملک بھر میں ہلچل مچانے اور کانگریس کی حکومت کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ کانگریسی لیڈروں پر الزامات پر الزامات لگائے گئے۔ کانگریس اور اس کی حلیف پارٹیوں کے کئی لیڈران نشانے پر رہے۔ کئی لیڈروں کے جیل جانے کی بھی نوبت آگئی۔ حالانکہ سارے الزامات غلط ثابت ہوئے، لیکن بدعنوانی کے خلاف عوام میں اس قدر غم و غصہ تھا کہ کانگریس کی حکومت کھوکھلی ہوگئی۔ جب 2014 میں بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نریندر مودی کو نامزد کیا گیا تو کانگریس اس قدر بدنام ہوگئی تھی کہ نریندر مودی کا پرچار اور انتخابی مہم بہت آسانی سے کامیاب ہوگئی۔ انّا ہزارے اور اروند کجریوال کی تحریک کا ایک مطالبہ بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے اور بدعنوان لیڈروں کو سزا دینے کے لئے ’لوک پال قانون‘ کا مطالبہ تھا لیکن لوک پال قانون نہیں بن سکا۔ اروند کجریوال کا گروپ مضبوط ہوچکا تھا اور کانگریس کے سیاسی لیڈران کجریوال اور ان کے گروپ کے کارکنوں کو طعنہ دینے لگے کہ اگر وہ بدعنوانی ختم کرنا چاہتے ہیں تو خود سیاست میں قدم رکھیں اور پھر ان کو سیاست کا اور حکومت کا مزہ چکھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ کجریوال نے اپنے رفقاء کے مشورے سے اس چیلنج کو قبول کیا اور ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ 26نومبر 2012میں عام آدمی پارٹی کی تشکیل عمل میں آئی۔ 2011 کی بدعنوانی مخالف مہم کی تحریک کے کارکنان اس پارٹی میں شامل ہوگئے۔
2013 کے دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے حصہ لیا اور دوسری بڑی پارٹی کی حیثیت سے 70میں سے 28 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کو 31 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ عام آدمی پارٹی کو 30%ووٹ ملے۔ کسی پارٹی کو اکثریت حاصل نہ ہونے کی صورت میں کانگریس کی مدد سے عام آدمی پارٹی کی سربراہی میں حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ یہ حکومت صرف 49 دنوں تک قائم رہی۔ عام آدمی پارٹی ’جن لوک پال بل‘ دہلی کے لئے اسمبلی میں پاس کرانے کی کوشش کی لیکن بی جے پی اور کانگریس نے اس بل کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ کجریوال نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 2015 کے دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو غیر معمولی کامیابی ملی۔ 70 سیٹوں میں سے 67 سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ 54.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ بی جے پی کو تین سیٹوں پر کامیابی ملی جب کہ کانگریس کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔ 2020 کے دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو 70سیٹوں میں 62سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ 2022 میں پنجاب اسمبلی الیکشن میں 117 سیٹوں میں سے 92سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کامیاب ہوئی، بھگوت مان سنگھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ عام آدمی پارٹی گجرات اسمبلی الیکشن میں 5 اور گوا اسمبلی الیکشن میں 2سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ اس طرح چار ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کو 6%ووٹ ملے جس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو نیشنل پارٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اتنی مختصر مدت میں کسی بھی پارٹی کو نیشنل پارٹی یا قومی پارٹی کا درجہ حاصل نہیں ہوا تھا۔
اروند کجریوال کی حکومت انڈیا کی واحد ایسی ریاست ہے جس کے سالانہ بجٹ میں خسارے کے بجائے سرپَلس بجٹ ہوا کرتا تھا۔ ان کی قیادت میں دہلی کی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں کل بجٹ کا جتنا حصہ مختص کیا جو شاید ہندوستان کی کسی ریاست نے نہیں کیا ہے۔ ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب انھیں وزیر اعظم نریندر مودی کے متبادل کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا۔ بنارس کے لوک سبھا حلقہ سے وہ مودی کے خلاف کھڑے بھی ہوئے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔
بعض سیاسی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کجریوال کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھنے لگے جس کی وجہ سے کجریوال کی سیاست کو ختم کرنے اور ان کی پارٹی کو نیست و نابود کرنے کے لئے سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال کرنا شروع کیا۔ شراب گھوٹالے کا مقدمہ دائر کرکے ان کے کئی لیڈروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کردیا۔ پہلے 6 مہینے کے اندر سنجے سنگھ کو ضمانت پر رہائی حاصل ہوئی۔ 20دنوں کے لئے اروند کجریوال کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لئے عارضی ضمانت ملی، لیکن پھر انھیں جیل میں جانا پڑا۔ کچھ دنوں کے بعد عام آدمی پارٹی کے دوسرے نمبر کے لیڈر اور دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسودیا بھی ضمانت پر جیل سے باہر آگئے۔ 13ستمبر کو 177دنوں کے بعد اروند کجریوال ضمانت پر رہا ہوئے۔ دو ہی دنوں کے بعد انھوں نے سیاسی دھماکہ کیا اور اعلان کیا کہ وہ دو دن کے بعد وزارت اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیں گے اور اس وقت تک وزیر اعلیٰ کی کرسی پر نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ دہلی کی جنتا انھیں بے قصور یا بے گناہ تسلیم نہیں کرے گی۔ انھوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے لئے کافی نہیں ہے۔ وہ عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کریں گے کہ عوام ان کو ایماندار سمجھتی ہے یا گناہ گار سمجھتی ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں الیکشن کمشنر سے بھی اپیل کی کہ مہاراشٹر کے اسمبلی الیکشن کے ساتھ دہلی کا اسمبلی الیکشن بھی کرائے۔ گزشتہ روز اروند کجریوال نے اتفاق رائے سے اپنے ممبران اسمبلی کے ذریعہ پارٹی کا لیڈر آتشی سنگھ کو چنا ۔ گزشتہ روز ہی اروند کجریوال نے دہلی کے ایل جی کو استعفیٰ نامہ پیش کردیا۔ آتشی سنگھ نے اس کے بعد عام آدمی پارٹی کے ممبران اسمبلی کے دستخط کی فہرست کے ساتھ حکومت سازی کا بھی دعویٰ پیش کردیا۔
اروند کجریوال کے استعفیٰ کو کچھ لوگ ’ماسٹر اسٹروک‘ کہہ رہے ہیں تو کچھ لوگ مجبوری بتا رہے ہیں۔ حالانکہ اروند کجریوال فروری 2025 تک وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ سکتے تھے۔ جہاں تک فائلوں پر دستخط کرنے کی بات کہی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ نے منع کردیا تھاکہ صرف ایل جی کی منظوری کے لئے جو فائل جاتی ہواسی پر وہ دستخط کرسکتے تھے۔ اروند کجریوال کے پاس حکومت کا کوئی محکمہ نہیں تھا۔ حکومت کے محکموں کے وزراء دستخط کرنے پر آزاد تھے۔ عدالت کی طرف سے ان کو وزارت اعلیٰ کے دفتر جانے سے منع کیا گیا تھا۔ اس ممانعت سے ان کے حکومت کرنے پر کوئی روک نہیں تھی۔ اس لئے کہ جب وہ جیل سے حکومت کر رہے تھے تو وہ اپنے گھر سے حکومت آسانی سے کرسکتے تھے۔ دراصل اروند کجریوال موجودہ سیاست دانوں میں سب سے زیادہ گھاگ اور ہوشیار سیاست داں ہیں۔ جو کچھ انھوں نے رہائی کے بعد کیا ہے اس سے ان کو دہلی میں ہمدردی حاصل ہوگی اور انھیں پھر دہلی کے ووٹرس بڑی تعداد میں ووٹ دے کر وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ اس سے زیادہ بہتر سیاسی حکمت عملی یا سیاسی چال اروند کجریوال کے لئے کوئی اور نہیں ہوسکتی تھی۔ اس چال سے مودی اور ان کی پارٹی مات کھاگئی۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ صحت اور تعلیم کے میدان میں جو کام کجریوال نے اپنی حکومت کے ذریعے انجام دیئے ہیں وہ کسی اور حکومت نے نہیں دیئے۔بجلی کی شرحوںمیں غیرمعمولی رعایت دی، جس کی وجہ سے بہت سے غریب خاندانوںکی بجلی مفت مل رہی ہے اور عورتوں کے لئے بس کی مفت سواری کی سہولت بھی فراہم کردی ہے۔
اروند کجریوال اور راہل گاندھی دونوں چاہتے تھے کہ ہریانہ میں دونوں کی پارٹیوں کا سمجھوتہ ہوجائے لیکن سمجھوتہ نہیں ہوسکا جو اپوزیشن اتحاد کے لئے خاص طور پر کانگریس کے لئے اچھا نہیں ہوا، کیونکہ کانگریس کے سابق صدر اور لیڈر راہل گاندھی اس وقت ’لیڈر آف اپوزیشن‘ ہیں ان کو اپنی اس حیثیت کو برقرار رکھنے اور جلا دینے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت راہل گاندھی کی اسی وقت مضبوط اور مستحکم ہوگی جب اپوزیشن کی سبھی پارٹیوں کی انھیں حمایت حاصل ہوگی۔ کانگریس کی بدقسمتی تھی کہ راہل گاندھی سمجھوتے کے آخری دنوں میں ملک سے باہر تھے اور کجریوال جیل میں تھے۔ یہ سمجھوتہ بہت آسانی سے ہوسکتا تھا اگر دونوں سمجھوتے کے وقت موجود ہوتے۔ سمجھوتہ کچھ اس طرح ہوسکتا تھا کہ عام آدمی پارٹی کو ہریانہ میں اتنے ہی امیدوار کھڑا کرنے کے لئے کانگریس رضامند ہوجاتی جتنی سیٹوں پر دہلی کے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کو عام آدمی پارٹی امیدوار کھڑا کرنے پر رضامند ہوتی۔ شاید یہ تجویز کسی کے ذہن میں کسی وجہ سے نہیں آئی اور سمجھوتہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہریانہ میں بی جے پی کو ہوگا۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS