آرٹیکل 370: مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا، شمال مشرقی ریاستوں پر لاگو خصوصی دفعات کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں

0

نئی دہلی، (یو این آئی) مرکزی حکومت نے بدھ کو سپریم کورٹ کے سامنے واضح کیا کہ اس کا شمال مشرقی ریاستوں پر نافذ خصوصی دفعات میں کوئی تبدیلی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے اپنا یہ موقف واضح کیا۔
مسٹر تشار مہتا نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لیے عارضی بندوبست پر بحث میں اس کا کوئی بھی حوالہ ‘ممکنہ فساد’ برپا کر سکتا ہے۔
انہوں نے ​​ریاست جموں و کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے اثرات پر بحث کی ایک بار پھر سابقہ مخالفت کی۔
مسٹر مہتا کے بیان کے بعد بنچ نے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور وکیل منیش تیواری سے کہا “آپ کے پاس آرٹیکل 370 کے سلسلے میں جب کچھ نہیں کہنا ہے، تو ہم آپ کے دلائل کیوں سنیں؟” مسٹر تیواری آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والے درخواست دہندگان میں سے چند کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران مسٹر تیواری نے دلیل دی کہ ہندوستانی سرحد میں معمولی سا خدشہ بھی سنگین اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ عدالت کو اس وقت منی پور میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
مسٹر تیواری نے کہا کہ آرٹیکل 370 جموں و کشمیر پر ناٖفذالعمل ہوتا ہے اور اس کی تشریح ممکنہ طور پر دیگر دفعات کو متاثر کر سکتی ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل 371 کے چھ ذیلی حصے جو شمال مشرق پر نافذ ہوتے ہیں۔ آئین کا چھٹا شیڈول جو آسام، تریپورہ، میگھالیہ پر نافذ ہوتا ہے اس معاملے میں متعلقہ ہو جاتا ہے۔
اس پر آئینی بنچ نے کہا “آئینی بنچ کا تعلق آرٹیکل 370 تک محدود ہے۔
مداخلت کار کی طرف سے حل کیے جانے والے مسائل اور اس آئینی بنچ کے تناظر میں اٹھائے گئے مسائل کے درمیان کوئی مطابقت نہیں ہے۔ بہر حال، مرکزی حکومت کا بیان اس سلسلے میں کسی بھی اندیشے کو دور کر دے گا۔ لہذا ہم مداخلت کرنے والے کی درخواست کو نمٹا دیتے ہیں۔ ,
مسٹر مہتا نے کہا ”میرے پاس یہ کہنے کے لیے (مرکز سے) ہدایات ہیں۔ ہمیں بہت ذمہ دار ہونا پڑے گا… ہمیں اس عارضی پروویژن آرٹیکل 370 کو سمجھنا چاہئے جو شمال مشرق سمیت دیگر ریاستوں کے حوالے سے خصوصی دفعات ہیں ۔
حکومت کے موقف کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا “مرکزی حکومت کا شمال مشرق اور دیگر خطوں کو دی گئی خصوصی دفعات کے کسی بھی حصے میں کوئی تبدیلی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس (دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت) میں بہت زیادہ فساد ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہذا میں اسے بیچ میں ہی واضح کر رہا ہوں۔ آئیے اسے عارضی تک محدود رکھیں۔”
مسٹر تیواری کی عرضی پر مسٹر مہتا نے کہا کہ کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ آئیے کسی قسم کا خوف پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔
اس پر چیف جسٹس چندر چوڑ، جو آئینی بنچ کی صدارت کر رہے تھے، نے کہا “ہم اس سے توقع یا اندیشے سے کیوں نمٹیں؟ ہم ایک مخصوص شق سے نمٹ رہے ہیں جو کہ آرٹیکل 370 ہے… ہمیں آئین کی دیگر شقوں پر تشریح کے اثر ات پر اس دائرہ کار کی توسیع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
بنچ نے نوٹ کیا کہ آرٹیکل 370 کو ایک عارضی شق کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور یقینی طور پر وکیل نے دلیل دی ہے کہ یہ عارضی نہیں ہے اور آرٹیکل 371 کو ان کارروائیوں میں نہیں لایا جانا چاہئے۔
آئینی بنچ نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت نے عدالت کو مطلع کیا ہے کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہمیں اس بات سے کیوں ڈرنا چاہئے کہ حکومت ملک کے دوسرے حصوں میں (جموں و کشمیر کی طرح) ایسا ہی کرنا چاہتی ہے۔
بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ابھی شمال مشرق پر توجہ نہیں دینی چاہئے۔ حکومت کے بیان سے یہ خدشہ دور ہو گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے مسٹر مہتا کی عرضیوں کا نوٹس لیا کہ مرکز کا شمال مشرقی یا ہندوستان کے کسی دوسرے حصے پر نافذ ہونے والے کسی خاص ضابطے میں تبدیلی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS