مولانا عبدالحفیظ اسلامی
جـوشخص بھی اپنی جھوٹی شان اور بڑائی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ ’’متکبر‘‘بن جاتا ہے پھر اس کے بعد اپنی بڑائی اور برتر ی کے سواء اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا یہاں تک کہ اگر اس کے سامنے حق پیش کردیا جائے تو بھی اس کے آگے اپنے کو جھکا دینے پر آمادہ نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنی حیثیت سے گری ہوئی چیز سمجھ کر ٹھکرا دیتا ہے۔ پھر اسی طرح جباریت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کسی پر اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے ہر طرح کی قوت و طاقت سے نوازتا ہے تو وہ اپنے منعم کو فراموش کردیتا ہے اور اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے جباریت کے اعمال اختیار کرتا ہے اور ایسے شخص کے نزدیک شریعت الٰہیہ کی پابندیاں کوئی وزن نہیں رکھتی بلکہ اسے قبول کرنے سے فرار اس کا طرہ امتیاز بن جاتا ہے حالانکہ تکبر تو خالق کائنات کو زیب دیتا ہے اور اسی طرح جبار کی صفت بھی اللہ تعالیٰ ہی کے شایان شان ہے۔ کائنات میں اولین طور پر اللہ کے آگے تکبر کا اظہارکرنے والا ابلیس ہے جو کہ اللہ نے اس پر قیامت تک کیلئے لعنت فرمادی ہے،قرآن اس کاذکر یوں کرتا ہے۔
یعنی ابلیس نے انکار کیا، بڑائی میں مبتلا ہوکر گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کا مرض اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور گھمنڈ میںمبتلا ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ ابلیس نے اپنے کو بڑا اس لے سمجھا کہ اللہ نے اسے آگ سے بنایا اور جس چیز (آدم علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کیلئے کہا جارہا ہے یہ مٹی سے بنائے گئے ہیں اور آگ مٹی سے اونچی چیز ہے، اس طرح اس کے دماغ میں تکبر کی ہو ا بھر گئی اور اپنے مالک کی نافرمانی کر بیٹھا۔
تکبر کی مذکورہ کیفیت صرف ابلیس تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ انسانوں کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے دنیا میںجو پھیلایا ہے ان کے اپنے ’’نسیان‘‘ کی بناء پر ابلیس لعین کے بھکاوے میں آکر، متکبر بن جاتا ہے البتہ اس کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں سے منہ پھیر کر بات کرنا، زمین میں اکڑ کر چلنا، خود پسندی اور فخر جتانا اپنی چال میں اعتدال نہ رکھنا اور گلے پھاڑ کر بات کرنا اور اس طرح کی اور چیزیں ہیں جو تکبر کے مظاہر میں شامل ہیں، قرآن حکیم ان چیزوں کی مذمت کرتا ہے۔
حضرت حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت فرمائی تھی اس کا ذکر قرآن میں یوں آیا ہے۔ ( جس کا خلاصہ یہ ہے ) انہوںنے سب سے پہلے اپنے بیٹے کو اس بات کی نصیحت فرمائی کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور یہ بات بھی بتلائی کہ اللہ ہر پوشیدہ سے پوشیدہ چیز سے باخبر، رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز اس کی نگاہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے، اس طرح خوف خدا اور اعمال کی جوابدہی کا احساس دلانے کے بعد ایک اور نصیحت یوں فرماتے ہیں، بیٹا نماز قائم کر، نیکی کا حکم کر اور بدی سے منع کر اور ہر مصیبت کے موقع پر صبر کا دامن پکڑے رکھ اور آگے اعمال متکبر سے اپنے بیٹے کو بچانے کیلئے مزیدتاکید یوں کرتے ہیں، اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیںکرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ (سورہ لقمان)
حضرت حکیم لقمان کی نصیحت اور تاکید پر غور کرنے اور اپنے اطراف کے ماحول پر نگاہ ڈالنے سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ موجودہ دور کے معاشرے کے اندر بھی وہ تمام باتیں موجود ہیں جو اصلاح طلب ہیں۔
منہ پھیر کر بات کرنا تکبر کے مظاہر میں سے ہے جس شخص کے اندر یہ بیماری ہوتی ہے وہ سامنے والے سے گفتگو کرتے وقت اس پر نظر التفات نہیں ڈالتا اور اسے کمتر جانتے ہوئے خاطر میں نہیں لاتا۔ اس سلسلہ میں ارشاد نبی ﷺ یوں آیا ہے ’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا ’’جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر و غرور ہوگا۔ اور اس حدیث میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’کبر تو حق کے مقابل میں اترانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ علاوہ ازیں زمین میں اکڑ کر چلنا بھی کبر میں شامل ہے،آدمی کے اندر یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے دماغ میں اپنی بڑائی و بزرگی کا بت بیٹھ جاتا ہے اور اپنی اس خود ساختہ شان کے اظہار کیلئے اپنی چال میںاکڑ پیدا کرتے ہوئے لوگوں میں نمایاں طور پر بڑائی محسو س کروانے کیلئے وہ سب کام کر گزرتا ہے جو ایک بندے مومن کو زیب نہیںدیتا۔ سورہ فرقان میںاللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’وہ زمین پر نرم چال چلتے ہیں۔ (آیت ۳۶)
صاحب تفسیر، تفہیم القرآن نے اس سلسلہ میں دل کو چھولینے والی تشریح فرمائی ہے وہ لکھتے ہی کہ ’’یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے، جباروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیںکرتے، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے۔’’نرم چال‘‘ سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیںہے اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکساری کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرنے کیلئے تصنع اختیار کرتا ہے۔ نبی ﷺ خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے متعلق روایات میںآیا ہے کہ انہوں نے ایک جوان آدمی کو مریل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپؐ نے درہ اٹھاکر اسے دھمکایا اور بولے قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو‘‘ ’’پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لوگے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں، اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنادیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے۔ ایک آدمی انہیں پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تکبر کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہمارے سامنے یوں آتی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’بزرگی میری چادر ہے اور عظمت میرا اِزار (تہبند) ہے پس جو شخص ان میں سے کسی ایک کو بھی مجھ سے چھیننا چاہے تو میں اسے دوزخ کی آگ میں ڈالوں گا‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’میں اسے دوزخ کی آگ میں پھینک دو گا ( مسلم) حقیقت یہ ہے کہ کبریائی، بڑائی و بزرگی صرف اور صرف اللہ جل شانہ کی عظیم صفات میں سے ہیں اور بندوں کو جو چیز زیب دیتی ہے وہ ہے عجز و انکساری اور خدائے تعالیٰ کے احکام کے آگے ہر وقت اپنی گردن کو جھکائے رکھنا اور اسی طرح فخر جتانا خود پسندی میں مبتلا ہوجانا بھی ایک مسلمان کی شان کے خلاف بات ہے۔ قرآن حکیم میںآیا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کسی گھمنڈ کرنے والے اور فخر کرنے والے کو۔