بی جے پی کی گجرات اور ہماچل پردیش کی ہار اور جیت نے2024 کے عام انتخابات کی کچھ حد تک تصویر صاف کر دی ہے۔ جہاں ایک جانب بی جے پی کی گجرات میں تاریخی جیت سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ پی ایم مودی کا جادو اب بھی برقرار ہے اور ان کی شخصیت میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو وہیں سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ پی ایم مودی کا اسی طرح سے عام انتخابات میں بھی جادو برقرار رہا تو 2024 بھی بی جے پی کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے لیکن اگر ہماچل پردیش کی شکست اور دہلی میں ایم سی ڈی میں بی جے پی کا کامیاب نہ ہونا اس بات کا بھی اشارہ کرتا ہے کہ آئندہ ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اتر پردیش میں ضمنی انتخابات کی بات کریں تو خاص بحث رام پور اسمبلی انتخابات کی رہی ہے جہاں بی جے پی نے آزادی کے بعد پہلی بار جیت درج کی ہے ۔
یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ ذاتوں کی مساوات اس اسمبلی کا کوئی اور نتیجہ ظاہر کر رہی ہے خاص کامیابی کے باوجود بی جے پی کے لکھنو دفتر پر سب نے خاموشی دیکھی اور سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ بی جے پی کی پریشانی کی کیا وجہ ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی واحد پارٹی ہے جو ایک کارپوریٹ کمپنی کی طرح انتخابی حکمت عملی تیار کرتی ہے اور انتخابات سے مہینوں پہلے میدان میں جدو جہد جاری کرتی ہے بی جے پی کی مرکزی قیادت یونٹ اور اتر پردیش یونٹ نے اتر پردیش ضمنی انتخابات کے نتائج سے مستقبل کے خطرے کو محسوس کیا ہے اور اس خطرے کی نشاندہی مین پوری لوک سبھا ضمنی انتخابات کے نتائج سے ہوئی ہے جہاں مین پوری لوک سبھا سیٹ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی اس ضمنی انتخاب میں جہاں بی جے پی نے رگھوراج سنگھ شاکیہ کو میدان میں اتارا تھا تو وہیں سماج وادی پارٹی نے اکھلیش یادو کی اہلیہ ڈمپل یادو کو میدان میں اتارا تھا ، اس سیاسی لڑائی میں ڈمپل یادو نے بی جے پی کو بڑے فرق سے شکست دے دی۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی کی اصل پریشانی مین پوری لوک سبھا کے نتائج ہیں اس کی وجہ واضح ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے ذریعے، مرکز میں کس کی حکومت بنے گی، اس کا فیصلہ کن کردار اتر پردیش نے ادا کر دیا ہے جہاں کل 80 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔اگر آپ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ اپوزیشن کی طاقت کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے اور ہر الیکشن اس طرح لڑتی ہے جیسے اس کے لئے کرو یا مرو کی صورتحال ہو لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی کی اپنی بہت سی حدود ہیں جن کو وہ فائدہ کے طور پر دیکھتی ہے لیکن انکا انتخابی نتائج میںمنفی اثر پڑتا ہے مثال کے طور پر دوسری پارٹیوں سے جیتنے والے ایم ایل ایز کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا اور اپنی حکومت بنانا کہیں نہ کہیں مینڈیٹ کی خلاف ورزی تو کرتا ہی ہے۔
اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمانی نظام والی ہندوسانی جمہوریت میں گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے مسائل کا سامنا ہے 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات ہوں یا ریاستی اسمبلی کے انتخابات، زیادہ تر معاملے میں یہ مسئلہ چہرے پر ہی حاوی رہا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت اور کرشمہ نے بی جے پی کو کئی بار برتری دلائی ہے لیکن کئی بار ریاستی انتخابات میں ممتابنری، نتیش کمار، اروندکجریوال چندر شیکھر رائو، نوین پٹنائک اور جگن موہن ریڈی کے چہرے پی ایم مودی اور بی جے پی کے چہرے پر بھاری ہیں یعنی زیادہ تر انتخابات مسائل سے زیادہ حریف جماعتوں کے لیڈروں کے چہروں کے درمیان ہوئے اور جس پارٹی کو بالا دستی حاصل ہوئی اسے کامیابی ملی اس سال کے شروع میں ہوئے اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر اعظم مودی کے چہروں کی مشترکہ مقبولیت نے سماج وادی پارٹی صدر اکھلیش یادو اور کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کی مقبولیت پر پردہ ڈال دیا۔ پنجاب میں اروند کجریوال اور بھگوت مان کے چہروں نے کانگریس کے تختے پلٹ دئے، یہی وجہ ہے کہ ان انتخابی نتائج سے سبق لیتے ہوئے کانگریس نے گجرات اور ہماچل پردیش کے انتخابات چہرے کے بجائے مسائل پر لڑنے کی حکمت عملی اپنائی گجرات میں پارٹی نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ چاہے وہ کتنی بھی محنت کرلیں وہاں اسے کامیابی ہاتھ نہیں لگنے والی اس لئے وہاں کے انتخابات مکمل طور پر مقامی لیڈروں اور اسمبلی حلقوں کے امیدواروں پر چھوڑ دئے گئے الیکشن کو مودی بمقابلہ راہل نہ بنانے کے لئے راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے روٹ میں گجرات کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ راہل گاندھی انتخابی مہم میں صرف ایک دن کے لئے گجرات گئے جہاں انہوں نے دو جلسوں سے خطاب کیا اور جو گجرات کا نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔
بہر حال!2024 لوک سبھاانتخابات کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کے مضبوط قلعے کو توڑنے کے لئے ابھی سے ہی حکمت عملی شروع کر دی ہے۔ اپوزیشن کو متحد کرنے کے لئے بہار کے سی ایم نتیش کمار سرگرم ہو گئے ہیں ،بہار کی راجدھانی پٹنہ میں جے ڈی یو کے کھلے اجلاس میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بی جے پی کو نشانہ بنایا انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی 2020 کے اسمبلی انتخابات میں اتحاد میں رہنے کے باوجود جے ڈی یو کے خلاف کام کیا اور اپنے امیدواروں کی شکست کو یقینی بنانے کی کوشش کی ، نتیش کمار نے اس بات کو دہرایا کہ اگر بی جے پی کی مخالفت کرنے والی پارٹیاں ایک ساتھ آنے پر راضی ہوں تو وہ2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیت سکتی ہے۔ نتیش کمار نے بی جے پی کی توڑنے والی پالیسی کو بھی واضح کیا اور کہا کہ جب ہم بی جے پی کے ساتھ تھے تب ہم نے الیکشن لڑا تو انہوں نے ہم سے زیادہ سیٹیں جیتیں ان لوگوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہمارے لوگوں کو ہرایا، اگر وہ دو ریاستوں میں ہار گئے تو اس کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے2024 میں اگر ہم مل کر الیکشن لڑیں گے تو جیت جائیں گے، ہم تیسرا محاذ نہیں ہم مرکزی محاذ ہیں۔ نتیش کمار نے یہ واضح کیا کہ اگر بی جے پی کی مخالفت کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوجائیں تو اس طرح کی گروہ بندی ہماری اکثریت کو یقینی بنا سکتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ 2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی مضبوط قلعے کو اپوزیشن جماعتیں کس طرح تو ڑ سکتی ہیں یا پھرسبھی سیاسی پارٹیوں کی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سیاسی ماہرین بھی مانتے ہیں کہ ایسے میں بی جے پی کو شکست دینا اپوزیشن کے لئے کافی مشکل ہوگا۔ اگر بی جے پی کو 2024 میں اقتدار سے باہر کرنا ہے تو اپنے اپنے سارے سیاسی نظریات کو بالائے طاق رکھ کر اپوزیشن جماعتوں کو ایک ساتھ آنا ہی ہوگا تبھی بی جے پی کے لئے اقتدار میں آنا مشکل ہوسکتا ہے۔
[email protected]
عارف شجر: 2024کے عام انتخابات کیلئے بساط بچھ چکی ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS