عارف عزیز(بھوپال): ہندوستان کے سماجی استحکام میں صوفیائے کرام کا حصہ

0

عارف عزیز(بھوپال)
اسلام اور مسلمانوں سے ازلی دشمن رکھنے والے بالخصوص مستشرقین کا یہ الزام ہے کہ مذہب اسلام دنیا میں تلوار سے پھیلا ہے، ایسے عناصر اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور آپ کی صلح کُل تعلیمات کا وسعتِ قلبی کے ساتھ جائزہ لیں نیز اولیائے کرام و صوفیائے عظامؒ کی سیرت و کردار کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ دنیا میں اسلام کا عروج کسی مادّی طاقت کا مرہونِ منت نہیں، یہ اُس کی اخلاقی تعلیمات کا نتیجہ ہے، جس میں حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی تبلیغی خدمات سرِفہرست ہیں، اگر موجودہ عالمِ اسلام پر ہی نظر ڈالیں تو اِس کا بیشتر حصّہ وہ ملے گا، جہاں مسلمانوں کی طرف سے کبھی لشکرکشی نہیں ہوئی، خاص طور پر انڈونیشیا، ملیشیا، مالدیپ اور افریقہ براعظم کے اکثر ممالک میں تو اسلام عرب تاجروں کے ذریعہ ہی پہنچا۔ اِس میں برصغیر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں، جہاں سب سے پہلے عرب تاجروں نے اپنے لنگر ڈالے اور صوفیائے کرام نے خیمے نصب کرکے اخلاق، کردار، معاملات کی تلوار سے لوگوں کے دل فتح کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اِس سرزمین کی یہ بھی بڑی خوبھی رہی کہ اُس نے اپنے بہی خواہوں کے لیے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، جو بھی اہل اللہ یہاں رونق افروز ہوئے مقامی لوگوں نے اُنھیں سر آنکھوں پر جگہ دی۔حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اور مولانا کرامت علی جونپوریؒ تو وہ ہستیاں ہیں، جن کے نہتے ہاتھوں پر لاکھوں انسان مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہ بزرگانِ دین انسانی دلوں کو فتح کرنے اور محبت کی تلوار سے دشمنوں کو گرویدہ بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ اِس کے برعکس وہ حاکم تھے جو اپنے علاقوں میں کاروبار حکومت سنبھالے ہوئے تھے، اُنھیں اپنی رعایا کی آسائش و ترقی کی کوئی فکر نہیں تھی، اُن کا واحد مقصد شخصی اقتدار اور سیاسی دبدبہ قائم رکھنا تھا۔
اِس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ممالکِ غیر سے بھی طالع آزما سلاطین اور اُن کے جرنیل ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہا، جب تک کہ سلطان محمود غزنوی نے ملک کو فتح نہیں کرلیا۔ اُن کی فوجیں دہلی اور اجمیر کو پامال کرتی ہوئی گجرات میں سومناتھ کے مندر تک پہونچ گئیں۔ محمود غزنوی ہو یا شہاب الدین غوری، اِن کے پے درپے حملوں سے ملک ضرور فتح ہوگیا لیکن وہ عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہے۔ اِس کے بجائے فطری طور پر عام ہندوستانیوں کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کڑواہٹ بڑھتی گئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں اسلام سب سے پہلے سندھ اور جنوبی ہند کے ساحلوں سے داخل ہوا اور نووارد مذہب کی اخلاقی تعلیمات عوام وخواص میں اِس کی مقبولیت کا سبب بنیں۔ اسلام کی اِس اشاعت میں جہاں فرسودہ طبقاتی نظام اور ذات برادری کی لعنت سے بیزاری کا بڑا دخل تھا، وہیں اِس کے شانہ بشانہ حضراتِ صوفیائے کرام اور اہل اللہ کی توجہات نے بھی اہم کردار ادا کیا، یہ عہدِ وسطیٰ کا ہندوستان تھا جب بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی گلے مل رہی تھیں اور علماء، صلحاء، فقہاء اور صوفیاء کے قافلے یہاں داخل ہورہے تھے، اُنھیں سرزمین ہند کی نرمی اور رواداری کا احساس ہوا تو وہ یہیں مقیم ہوگئے، اُن کے اخلاق و کردار کے عملی مظاہرے ساتھ ہی رُشدوہدایت کی سرگرمیوں کا یہ اثر ہوا کہ عوام الناس اپنے دُکھ اور مصیبتوں میں اِن اہل اللہ سے رجوع ہونے لگے، جواب میں خود وہ بھی ’’الخلق عیال اللہ ‘‘کے مسلک یعنی انسانوں کو ’خدا کا کنبہ‘ قرار دے کر اُن کی مادّی و روحانی تربیت میں مصروف ہوگئے۔
صوفیائے عظام کی اِس خدمت کا نقش عوام کے دلوں پر اِتنا گہرا ہوا کہ وہ مسلم حکمراں و سلاطین کو فراموش کرکے صوفیائے باصفا کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگے، اُن کی ہدایت پر سرتسلیم خم کرنے اور اُن کے دکھائے ہوئے راستہ کو مشعلِ راہ بناکر زندگی گزارنے لگے، صوفیائے کرام ذات وبرادری کے امتیاز اور اشرف وارزال کی تفریق کے قائل نہیں تھے، سب کے ساتھ اُن کا یکساں سلوک اور اپنائیت کا برتاؤ بھی معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب کررہا تھا۔
دوسری جانب وہ سلاطین وحکمراں تھے، جو اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے ہندوستان میں وارد ہوئے تھے، اِس لیے عوام سے اُن کے براہِ راست رابطہ و تعلق کے شواہد کم ملتے ہیں۔ اُنھیں کاروبارِ حکومت سے وقت نکال کر عام انسانوں تک پہنچنے کی فرصت بھی نہیں تھی، چار بڑی ذاتوں کے سوا دوسری پسماندہ برادریوں کے لیے مساوات تو کجا، انسانیت کا عام سلوک بھی عنقا تھا، جبکہ حضرات صوفیاء کا مشن و مقصد عوام سے جوڑ رکھنا، اُن کی بھلائی اور تربیت کی فکر کرنا تھا، جس کے لیے اُنھوں نے سماج کے اُس طبقہ پر توجہ دی جو بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے زندگی کی آسائشوں سے محروم تھا یعنی غریب، مزدور اور کسان، جن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا، اِس نادار طبقہ کو اپنا بناکر صوفیائے کرام نے اُمید اور آرزوؤں کی لڑی میں اِس طرح پرو دیا کہ وہ کچھ نہ کچھ ہوتے ہوئے بھی خود کو امیدویقین کے جذبے سے سرشار محسوس کرنے لگا۔
صوفیاء کی اِس غیر معمولی خدمت کا دوسرا نتیجہ ہندوستانی معاشرہ میں سماجی استحکام کی صورت میں برآمد ہوا، خاص طور پر بزرگوں کی اصلاحی تعلیمات نے لوگوں کے دلوں پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ اُنھیں تلقین کی گئی کہ
٭ مرشد کی بتائی ہوئی راہ پر چلیں
٭ وہ عبادت کریں جس کی اُنھیں ہدایت کی جائے
٭ اپنی حاجت کے لیے خدا کے سوا کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں
٭ مولا کی رضا کے لیے مخلوق سے حسنِ سلوک کا برتاؤ کریں
بظاہر سیدھی سادھی اور عام فہم سی اِن باتوں کے عوام الناس کے دلوں پر گہرے اثرات ہوئے اور معاشرہ میں اخوت ومحبت، خیرسگالی و ہمدردی کے ماحول کے قیام میں مدد ملی۔ سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں آکر حضراتِ صوفیاء نے صرف محبت کا پیغام دیا اور اِس پیغام نے انسانوں کے دلوں کو تمام بھیدبھاؤ سے پاک کردیا اور وہ تمام حدبندیوں کو فراموش کرکے اِس شعر کی عملی تفسیر بن گئے ؎
دل بدر گاہ جلیل اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
یعنی انسان کے دل کو ربِّ غفور کا عرش سمجھو، کسی بندے کو دُکھ نہ دو کیونکہ کعبہ تو پتھر کا بنا ہوا ہے، جو عبادت کا مقام ہے لیکن انسانی دل اللہ کا وہ گھر ہے، جس میں اُس کا نور برستا ہے۔ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی اور انسان میں ارفع و اعلیٰ شے اُس کا دل ہے، قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ شاعر نے مسلمان کا دل نہیں انسان کا دل کہا ، یہی فراخ دلی، رواداری، بالغ نظری صوفیائے کرام کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتی ہے، انھوں نے نفس کے تزکیہ کی ہی تعلیم نہیں دی، احسان کا سبق بھی پڑھایا، خدا بینی و خودبینی کے ساتھ جہاں بینی کا فلسفہ بھی سمجھایا۔
صوفیاء کی مذکورہ تعلیمات کا ہی یہ نتیجہ نکلا کہ زمانہ آپ کا مطیع وفرمانبردار ہوگیا، زمین اور جسم پر خواہ بادشاہوں کا حکم چلتا ہو لیکن دلوں پر اہل للہ کا سکّہ چلنے لگا۔ اُن کی بارگاہ میں امیروغریب، حاکم ومحکوم، عالم و جاہل بلالحاظ مذہب و ملّت سبھی حاضری دینے لگے اور یہ بھول گئے کہ وہ کس مذہب، ذات، سماج اور علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس طرح ہندوستان جسے کفروشرک کے معاشرے اور پراگندہ حال سماج کو جو رسم ورواج میں جکڑا ہوا تھا، کو دولتِ ایمان و اسلام سے منور کردینا صوفیائے عظام کا زبردست کارنامہ ہے، اُنھوں نے سب سے اہم کام انسانوں کے دلوں کو جوڑنے کا انجام دیا، اگر وہ مصلحتِ وقت اور روحانی تصرفات کا سہارا نہیں لیتے تو آج یہاں نہ مساجد ہوتیں، نہ مدارس، نہ خانقاہیں ہوتیں نہ مقابر بلکہ حق بات یہ ہے کہ آج کے ہندوستان میں بیس پچیس کروڑ انسانی نفوس پر مشتمل مسلم آبادی حضرات صوفیائے عظام کی کدوکاش کا نتیجہ ہے۔ آٹھویں صدی کے ایک تذکرہ نگار مولانا امیر خوردکرمانی کا تو یہ خیال ہے کہ آنے والی نسلیں جن میں دین و ایمان کی روشنی پائی جائے گی وہ سب حضراتِ صوفیاء کی ممنونِ احسان ہوں گی۔
www.arifaziz.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS