آج سے ایک دہائی پہلے تک ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ کسی کا مذہب جاننے کے لیے پوچھا جاتاتھا، اس کے انسان ہونے یا نہ ہونے کا پتہ کرنے کے لیے نہیں، اس لیے کسی کو اعتراض نہ ہوتا تھا مگر آج ’کیا تم مسلمان ہو؟‘ یہ سوال مہلک بن گیا ہے۔ یہ صرف سوال نہیں رہ گیا ہے، یہ انسانیت کو سمجھنے کا پیمانہ بن گیا ہے لیکن مسلمان انسان نہیں ہوتا اور اگر مسلمان بھی انسان ہوتا ہے، پھر یہ سوال پوچھ کر مدھیہ پردیش کے قصبے نیمچ میں بھنور لال جین کو کیوں مارا گیا؟ بھنور لال جین کی ہلاکت پیٹے جانے کی وجہ سے ہوئی اور ان کے قتل کا الزام بی جے پی لیڈر دنیش کشواہا پر عائد کیا گیا ہے۔ پولیس نے دنیش کشواہا اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قتل کا معاملہ درج کر لیا ہے۔ خبروں کے مطابق، دنیش کشواہاکو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ بھنور لال جین مسلمان ہیں۔ اسی لیے وہ انہیں پیٹنے لگے تھے۔ اس سلسلے میں ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں بھنور لال جین سے پوچھا جا رہا ہے کہ ’ کیا تم مسلمان ہو؟‘اس سے بظاہر یہی مطلب نکلتا ہے کہ بھنور لال جین کی جان اس لیے گئی، کیونکہ انہیں مسلمان سمجھا گیا۔ انہیں اگر مسلمان نہیں سمجھا جاتا، ان کا اصل نام لوگ جان جاتے، اصل مذہب جان جاتے تو وہ مارے نہیں جاتے۔ اس واقعے کو کانگریس نے لنچنگ قرار دیا ہے۔ بی جے پی سمیت دیگر پارٹیاں اسے لنچنگ مانتی ہیں یا نہیں، یہ بحث کا الگ موضوع ہے مگر یہ واقعہ باعث شرم ضرور ہے۔ اس طرح کے واقعات انجام دینے والے بھارت کے نام میں کون سا چار چاند لگا رہے ہیں،یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
تعجب اس بات پر ہے کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود لنچنگ کے واقعات نہیں رک پا رہے ہیں لیکن یہ رک کیوں نہیں پا رہے ہیں؟ یہ سوچنے والی بات ہے۔ حکومتیں لنچنگ پر کنٹرول کرنے کے لیے اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو وہ دیگر ملکوں سے بھی سیکھ سکتی ہیں۔ ایک وقت امریکہ لنچنگ سے کافی پریشان تھا، 1890 کی دہائی سے 1920 کی دہائی تک لنچنگ کی وجہ سے امریکہ کی کافی بدنامی ہوئی تھی، 1883 سے 1941 کے درمیان امریکہ میں 4,467 لوگوں کی لنچنگ ہوئی تھی۔ ان میں 3,265 سیاہ فام تھے اور 1,082 سفیدفام تھے، باقی دیگر تھے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی حکومت کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ امریکہ کو اگر واقعی خوش حال بنائے رکھنا ہے، زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانا ہے تو اس طرح کے واقعات کے لیے گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے نسل پرستی کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہونے کے باوجود امریکی حکومتیں لنچنگ کو ختم کرنے میں کامیاب رہیں۔ ہمارے ملک میں امریکہ کی ’نسل پرستی‘ جیسی ’مذہب پرستی‘ نہیں ہے، ہمارے ملک کے لوگ برسہا برس سے ساتھ رہتے آئے ہیں، ملک کی گنگا جمنی تہذیب پر فخر کرتے آئے ہیں تو آج حالات اتنے خراب کیوں ہوگئے ہیں کہ نام پوچھ کر لنچنگ کی جاتی ہے؟
وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں پہلی بار ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ نعرے کے ساتھ آئے تھے، دوسری بار اس نعرے میں ’سب کا وشواس‘ بھی جوڑا گیا تھا اور اس ایک نعرے نے یہ امید بندھائی تھی کہ وشواس بحال رکھنے والے ہی کام ہوں گے مگر نیمچ کے واقعے جیسا جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ ان لوگوں کو دہلا دیتا ہے جو انسان سے جانور بننے کی توقع نہیں رکھتے۔ دعوے سے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ 65 سالہ بھنور لال جین کے ساتھ نیمچ میں جو ہوا، کل کسی اور کے ساتھ نہیں ہوگا۔ راحت اندوری نے بجا طور پر کہا تھا، ’لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زدمیں‘ مگر انسان کو مارنے کے لیے اس کا مذہب پوچھنے والوں کو یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آ سکی ہے۔جن لوگوں کے لیے سارے انسان برابر نہ ہوں، جو ہر مذہب کے آدمی کو انسان ماننے کے لیے تیارنہ ہوں، ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ کسی کو غیر مذہب کا ہونے پر چھوڑ دیں گے۔ کیا ہمارے ملک کی صورت حال اس طرف بڑھ رہی ہے جہاں ماتھے پر نام اور مذہب لکھ کر چلنا ہوگا اور ساتھ میں اپنے انسان ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی رکھنا ہوگا؟ بھنور لال جین کا قتل افسوسناک اور مایوس کن ہی نہیں، تشویشناک بھی ہے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب یوکرین جنگ کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کے چھڑنے کا اندیشہ ہے، ادھر چین لداخ میں پنگانگ پر ایک اور پل کی تعمیر کر رہا ہے۔ انسانیت کے نام پر نہ سہی، ہندوستانی ہونے کے ناطے ملک کے تمام لوگوںکا ایک دوسرے سے نفرت نہ کرناکیا واقعی ممکن نہیں ہے ؟ اس سوال پر آج غور کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
[email protected]
’کیا تم مسلمان ہو؟‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS