شاہنواز احمد صدیقی
اسرائیل اپنے آپ کو ایک جمہوری ملک قرار دیتا ہے مگر گزشتہ چار سال میں اسرائیل کے اندر سیاسی عدم استحکام اس قدر شدید ہو گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کئی سیاسی پارٹیوں کی اتحاد سے بنی نفٹالی سرکار کو اپنی مدت کے ایک سال پورا ہونے کے اندر اندر مستعفی ہونا پڑا۔ اب اسرائیل کے اندر پانچویں عام انتخابات یکم نومبر کو ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں فلسطینیوں کے تئیں نفرت ، بغض اور جارحیت کے معاملے میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کی سرکار جو کہ 12 سال تک اقتدار میں رہی اپنی مدت کی تیسری میقات میں گر گئی تھی اس کے بعد سے دو مرتبہ الیکشن ہو چکے ہیں اور کوئی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی اتحاد ایک مستقل اور دائم سرکار بنانے میں کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔ بنجامن نتن یاہو کئی دیگر سربراہان مملکت اور حکومت کی طرح اسرائیل کے سخت گیر نظریات والے سابق فوجی ہیں۔ ان کے نظریات اور ان کی حکمت عملی فلسطینیوں کے تئیں انتہائی جارحانہ ہے۔ اور اسی جارحیت اور تنگ نظری کی بنیاد پر وہ 12 سال تک اقتدار پر قابض رہے۔ ان کے خلاف بد ترین کرپشن کے الزامات لگے مگر وہ اپنی مذکور ہ بالا اسی تنگ نظری کی بنیاد پر اقتدار پر چپکے رہے۔ 2021 میں غزہ پر بدترین بمباری کرنے کے بعد انہوں نے اپنی مقبولیت کو بڑھانے کی کوشش کی اور اسی خونی کھیل سے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کی ناکام کوشش کی مگر وہ عوام میں بدعنوانیوں کے لیے اس قدر بدنام ہو چکے تھے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے ان کی قیادت میں اعتماد نہیں کیا تھا اور آخر کار کئی پارٹیوں کے اتحاد نے نفٹالی کی قیادت میں سرکار بنائی تھی ۔ مگر یہ سرکارتضادات اور اختلافات کے بوجھ میں خود ہی گر گئی اور اس سرکار میں وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز رہے یائیر لیپڈ نے نگراں سرکار کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل میں فلسطین کشی اور انسانیت کشی کامسابقہ چل ہے اور ہر لیڈر اور سیاسی جماعت اپنے آپ کو بڑا فلسطینی دشمن ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہی ثابت کرنے پراس کو امید رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسرائیلی اس کے حق میں ووٹ دیں گے۔ کار گزار وزیر اعظم یائیر لیپڈ نے گزشتہ شب کی کارروائی کے فوراً بعد براہ راست نشریہ میں اس کارروائی کا کریڈیٹ لینے کی بھر پور کوشش کی ہے انہوں نے کہا تھا کہ یہ کارروائی ایک پختہ حملے کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کی سرکار حملے کی کوشش پر زیرو ٹولرینس رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنے جارحانہ تیور دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ شہریوں کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش پر اسرائیل خاموش نہیں بیٹھے گا۔ انہوں نے غزہ کے بارے میں کہا تھا کہ اسرائیل غزہ کی سرحد کو لے کر کسی تنازع میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے مگر وہ اس سے اجتناب بھی نہیں کرے گا۔ لیپڈ یکم نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں اپنی موجودہ پوزیشن کو بر قرار رکھنے کے لیے جی توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
دراصل اسرائیل کی حالیہ کارروائی سے ایک نئے تصادم کا اندیشہ پیدا ہو چکا ہے۔ تقریباً 15 ماہ قبل غزہ میں اسرائیلی کارروائی میں کئی سو لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور غزہ کے کئی اداروں ، تنصیبات اور بنیادی ڈھانچہ کے مراکز کو جان بوجھ کر تہس نہس کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس ٹارگیٹیڈ کارروائی کا مقصد غزہ انتظامیہ اور وہاں کے مکینوں کو زیادہ سے زیادہ مشکلات سے دوچار کرنا تھا جو کہ پہلے ہی اس پورے خطہ کی حصار بندی کے بعد ایک کھلی جیل میں تبدیل ہو گئی ہے۔ 20 سال قبل اسرائیل نے غزہ کے ارد گرد اونچی اور مضبوط دیوار بنا کر غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا تھا۔
غزہ کی اس چوطرفہ ناکہ بندی کی اگر چہ عالمی سطح پر مذمت کی گئی تھی مگر کسی بھی ادارے اور سرکار میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسرائیل کو اس غیر انسانی حرکت سے باز رکھ پاتا۔ ترکی نے غزہ کے مکینوں کو راحت پہنچانے کے لیے سمندر کے راستے رسد بھیجنے کی کوشش کی تھی۔ جس پر اسرائیل نے کارروائی کر کے اس بحری جہاز کو تباہ کر دیا تھا، اس کارروائی میں کئی افراد کی موت ہو گئی تھی۔
اسرائیل کے ’جمہوری نظام‘ کا شکار بن رہے ہیں فلسطینی؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS