مذہبی کتابیں کوئی ذاتی جائیداد نہیں ہوتیں کہ کوئی آدمی اس میں تخفیف و اضافے کی بات کرے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ معاشرے کو پرامن رکھنے کے لیے اسے سخت الفاظ میں متنبہ کر دینا چاہیے، اس کے خلاف جرمانہ عائد کرنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اس کی ڈگر پر چلنے کی جرأت نہ کرے۔ عدالت عظمیٰ نے اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین سید وسیم رضوی کی قرآن پاک کی 26 آیتوں کو ہٹانے کی عرضی خارج کر دی ہے اور اسی کے ساتھ عرضی گزار پر ایسی عرضی دائر کرنے کے لیے 50,000 روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ سید وسیم رضوی کی عرضی پر لوگوں میں جو بے چینی تھی، عدالت عظمیٰ نے اسے ختم کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے سے معاشرے کو تنازع سے بچا لیا ہے تو وطن عزیز ہندوستان کو بدنام ہونے سے بھی بچا لیا ہے، کیونکہ سید وسیم رضوی کی عرضی اس مقدس کتاب کے بارے میں تھی جو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی تقریباً دو ارب لوگوں کی رہنما ہے۔ مسلمان اسے مکمل ضابطۂ حیات مانتے ہیں۔ یہ وہی کتاب ہے جو سکھاتی ہے، ’۔۔۔جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، تو گویا اس نے پوری نوع انسانی کو زندہ کر دیا۔۔۔‘(سورہ 5، آیت32) لیکن سید وسیم رضوی جیسے لوگ اس آیت کو کیا سمجھیں گے؟ ان کا اپنا کردار کیا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے سال نومبر میں یہ خبر آئی تھی کہ ’مرکزی جانچ ایجنسی سی بی آئی نے اترپردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کے خلاف کیس درج کر لیا ہے۔ اترپردیش سرکار کی سفارش کی بنیاد پر سی بی آئی نے صوبے کی شیعہ وقف جائیدادوں کو غیر قانونی طریقے سے بیچنے، خریدنے اور منتقل کرنے کے الزام میں یہ معاملہ درج کیا ہے۔‘ اس لیے قرآن پاک کی آیتوں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں عرضی دائر کرنے کا معاملہ ہو یا دیگر بیان بازیوں کا معاملہ، یہ بات ناقابل فہم نہیں ہے کہ سید وسیم رضوی کی بے چینی کی وجہ کیا ہے لیکن جواب طلب سوال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ سنا دینے سے غیر مسلم یہ سمجھ جائیں گے کہ قرآن پاک میں ایسا کچھ نہیں جو سید وسیم رضوی نے بتانے کی کوشش کی؟ ایسا لگتا نہیں، خاص کر ایسے دور میں جب اسلاموفوبیا کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے، کئی لوگ مسلمانوں کو شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اکثر مسلمان بھی اس طرح کے قول و عمل کا اظہار نہیں کر پاتے جو اسلام انہیں سکھاتا ہے۔ ایسی صورت میں حق کی باتیں کرنے والوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ حق کی روشنی ان لوگوں تک پہنچائیں جہاں تک یہ روشنی نہیں پہنچی۔
قرآن پاک کے ترجمے جن زبانوں میں نہیں ہوئے ہیں، ان میں ان کے ترجمے ہونے چاہئیں۔ غیر مسلموں کو قرآن پاک پڑھنے کے لیے دیں تاکہ وہ خود پڑھ کر سمجھ سکیں کہ قرآن پاک راہ نجات کی کتاب ہے، یہ واقعی مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اگر اسے کوئی سمجھ نہیں پا رہا ہے تو یہ اس کی بدنصیبی ہے، اگر کوئی اس کتاب میں نقص نکالنا چاہتا ہے تو یہ بات مان لینی چاہیے کہ اس نے قرآن پاک سمجھنے کی کوشش نہیں کی یا یہ کتاب اس کی سمجھ سے باہر ہے، کیونکہ اس کا کردار اس مقدس کتاب کو سمجھنے کے لائق ہی نہیں جیسے وسیم رضوی۔ وسیم رضوی جیسے لوگ اپنی کمیونٹی کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، مسئلے پیدا کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں مگر وہ غلط فہمی کے شکار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی حرکتوں سے وہ مسلم مخالف طاقتوں کا دل جیت لیں گے مگر مسلم مخالف طاقتیں بھی یہ جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے لیے قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ اس میں لکھا ہر حرف حرف آخر ہے۔ اس میں کوئی انسان تخفیف یا توسیع کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا تو پھر تخفیف یا توسیع کی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ سید وسیم رضوی کو خواہ مخواہ کا تنازع پیدا کرنے سے باز آنا چاہیے، کیونکہ اس سے الزامات کا دائرہ ہٹے گا نہیں اور ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کا یہ نعرہ ہے کہ ’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا۔‘ تو ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی ایسے شخص کی مدد کریں گے جس پر ’وقف جائیدادوں کو غیر قانونی طریقے سے بیچنے، خریدنے اور منتقل کرنے کا الزام‘ ہو۔ بہرکیف، عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ایک نظیر قائم کرے گا، اس کی امید کی جانی چاہیے۔
[email protected]
عدالت عظمیٰ کا مستحسن فیصلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS