ڈاکٹر سید احمد قادری
اس وقت ہمارا ملک پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حضرت محمدﷺ کی ذات مبارک پر نا زیبا تبصرہ اس ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی کے دو نام نہاد لیڈران کے ذریعہ ملک کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے دیا گیا اور یہ سمجھاگیا کہ جس طرح گزشتہ 8برسوں سے ملک کے مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں دو نمبر شہری ہونے کا احساس دلانے ، انھیں معاشی ، تعلیمی ،سیاسی و سماجی طور پر حاشیہ پر ڈالنے کی منظم اور منصوبہ بند کوشش کے باوجود مسلمان صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے اسی طرح توہین رسالت پر بھی خاموشی اختیار کریں گے، لیکن پانسا الٹا پڑ گیا ۔انھیں اس بات کا شاید اندازہ نہیں رہا کہ مسلمان اپنے اُوپر کئے جانے والے ہر ظلم و ستم کو برداشت کر سکتا ہے لیکن اہانت رسول کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ نوپور شرما اور نوین کمار جندل کے نازیبا بیان پر نہ صرف اس ملک میں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں زبردست ناراضگی دیکھی گئی۔ عرب ، ایران ،یوروپ، امریکہ، اقوام متحدہ اور 57 ممبران والے او آئی سی وغیرہ نے زبردست احتجاج اور اعتراض کیا اور حکومت ہند کو ایسے بیان دینے والے پر سخت کارروائی کئے جانے کو کہا۔ جو لوگ ایسا سمجھ رہے تھے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بیان دے کر وہ ملک کے سربراہ کے سامنے سرخرو ہوںگے، ایسے جاہلوں اور بیوقوفوں کی جنّت میں رہنے والے لوگوں میں مسلم دشمنی اس قدر حاوی ہو گئی کہ ان کی نگاہ میں مسلم دشمنی کے پیچھے ملک دشمنی کا ا حساس بھی جاتا رہا ۔ اب جب کہ متحدہ عرب امارات سمیت 15سے زائد ممالک میں ہندوستان کی پروڈکٹس کی فروخت پر بریک لگ گیا ہے۔ ساتھ ساتھ ان ملکوں میں تقریباً نوے لاکھ لوگوں کی ملازمت پر بھی خطرہ منڈرانے لگا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ ریزرو بینک آف انڈیا بار بار ملک کی گرتی معیشت سے متنبہ کر رہا ہے ۔ ملک میں بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ ملک کے کروڑوں نوجوان بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔ ایسے میں بالفرض اگر عرب ممالک نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل کی جا رہی منصوبہ بند اور منظم سازش سے ناراض ہو کر اپنے ممالک سے ہندوستان کے ملازمین کو نکال باہر کیا تو ان ملازمین کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔ ساتھ ساتھ ہندوستان کو ان ممالک سے جو چالیس ہزار بلین ڈالر کا جو زر مبادلہ ملتا ہے نیز ہندوستان کا جوسامان ان ممالک میں کھپت ہوتا ہے ،اس سلسلہ کے ساتھ ہی دیگر جو سہولیات ملتی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گی، جس کا سیدھا منفی اثر ملک کی معیشت پر پڑے گا۔ا س پس منظر میں کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ ملک کے لیڈران کو اپنے ملک اور اپنے مذہب سے کوئی محبت نہیں ہے وہ بس برسراقتدار رہنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اس بات کی قطعی پروا نہیں ہے کہ ان کی مسلم دشمنی دراصل ملک دشمنی ہے ۔
ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہندوستان میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے ۔ اس وقت سے پورے ملک میں آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے لئے ملک کی اقلیتوں خصوصاًمسلمانوں کی زندگی تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ کبھی حجاب کے نام پر کبھی حلال کے نام پر کبھی ماب لنچنگ، کبھی کاشی، متھرا کی صدیوں پرانی مساجد پر زبردستی قبضہ کی کوشش ، کبھی تاج محل ، قطب مینار اور پھر اجمیر شریف کی درگاہ پر بھی متنازع اور اشتعال انگیز بیان اور نفرت ، تعصب ، فرقہ واریت ، عدم رواداری ، بد امنی ، انتشار ، خلفشار ، ظلم ، تشدد، بربریت بھرے سلوک سے غیر آئینی اور غیر انسانی مسموم فضا دانستہ طور پر تیار کی جاری ہے ۔ ایسے حالات پیدا کرکے ان فرقہ پرستوں کے مطابق ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں عوامی بیداری آئے گی اور ہندوتو کے نام پر آسانی سے لوگ ہندوراشٹربنانے کی راہ آسان ہو جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اندر یکجہتی ، گنگا جمنی تہذیب اور آپسی اتحاد و اتفاق کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اتنی آسانی سے ایسی شاندار روایت ختم نہیں ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہندو ، مسلم سکھ ، عیسائی کے درمیان جوصدیوںسے آپسی محبت اور بھائی چارگی قائم ہے ان کا خاتمہ ممکن ہے ۔یہی وجہ رہی کہ ملک کے اندر ہندو مسلم کے نام پر جب جب سیاسی کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ اقلیتوں دلتوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر ظلم و تشدد بھرے سانحات ہوئے، ان مظالم کے خلاف ملک کے محب الوطن دانشوروں، فنکاروں، ادیبوں، شاعروں، سابق فوجیوں، سابق نوکر شاہوں نے سختی سے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے سربراہ کی ایسے حالات سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ وہ انھیں متنبہ کرتے رہے اور ایسے سانحات کو روکنے کی گزارش اپنے خطوط میں کرتے رہے ۔ لیکن افسوس کہ ایسی ساری گزارشات کو اقتدار کے نشہ میں قابل اعتنا نہیں سمجھ گیا ۔ ان گزارشات پر عمل درآمد تو دور ایسے لوگوں کو دیش دروہ کہا گیا اور انھیں خاموش کرنے کے لئے ان کے خلاف طرح طرح کے الزامات لگا کر ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ۔ بعض لوگوں کو سی بی آئی ، ای ڈی، انکم ٹیکس وغیرہ جیسے اداروں کے ذریعہ پریشان کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن ان محب وطن لوگوں نے جیل جانا پسند کیا ، پولیس کے ڈنڈے کھائے ، حکومت کا ہر ظلم و تشدد کو برداشت کیا ، لیکن خاموش نہیں رہے ۔ ملک کی اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں پر غیر آئینی اور غیر انسانی ظلم اور نا انصافی کے خلاف احتجاج اور اعتراض بیرون ممالک میں بھی اکثر کیا جاتا رہا ہے ۔ اس سال کے یوم جمہوریہ ہندکے موقع پر ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ ، جینوسائیڈ واچ ، ہندوز فار ہیومن رائٹس ،انڈین امریکن مسلم کونسل اور نیو یارک اسٹیٹ کونسل چرچ سمیت کئی امریکی حقوق انسانی تنظیموں نے ’ہندوستان کے متنوع آئین کا تحفظ ‘ کے موضوع پر ایک ورچوئل پروگرام کا انعقاد کیا تھا ۔ اس پروگرام کے پینل میں سینیٹر ایڈ مارکے ، ممبر امریکی کانگریس جم میک گورون، اینڈی لیون ،جیمی ریسکن کے ساتھ ساتھ ماریشش کی سابق صدر امینہ گُریب فاکیم اور سابق نائب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر حامد انصاری سمیت امریکہ کی کئی دیگر سرکرد ہ شخصیات شامل تھیں ۔ان تمام لوگوںنے ہندوستان کے مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے حقوق کی پامالی اوران پر بڑھتے ظلم ، تشدد، عدم رواداری ، عدم تحفظ اور منافرت پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔امریکی سینیٹر ایڈ مارکی نے ہندوستان میں مودی حکومت کے ذریعہ اقلیتوں کے حقوق کو پس پشت ڈالنے پر اپنی فکر مندی کا اظہارکیا تھا۔ ماریشش کی سابق صدر امینہ گُریب فاکیم نے اس بات پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہندوستانی آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں آئینی دفعات موجود رہنے کے باوجود بین الاقوامی پریس مسلسل اقلیتوں کے حقوق پامال کئے جانے کی رپورٹ پیش کر رہا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے ہمارے ملک کے برسر اقتدار رہنماؤں نے ان تمام اعتراضات اور مشوروں پر توجہ نہیں دی ، جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان دنیا کے کئی اہم ممالک کے نشانے پر ہے۔ تعجب اور افسوس اس بات پر بھی ہے کہ ان تمام منظر نامے میں ملک کے سربراہ نے مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
[email protected]