اختیارات کے ارتکاز کی جانب ایک اور قدم

0

صبیح احمد

مرکزی حکومت نے ’ون نیشن ون الیکشن‘ (ایک ملک ایک الیکشن) کے امکانات تلاش کرنے کے لیے سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں جب سے کمیٹی تشکیل دی ہے، اس پر ایک سیاسی تنازع شروع ہو گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ پیش رفت پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کی جانب سے 18 سے 22 ستمبر تک پارلیمنٹ کا خصوصی 5 روزہ اجلاس بلانے کے اعلان کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔ شاید اسی لیے اپوزیشن نے اسے 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل ایک چال قرار دیا ہے۔ وہیںکمیٹی کے سربراہ کے طور پر سابق صدر رام ناتھ کووند کی تقرری پر بھی انگلی اٹھائی جا رہی ہے اور اسے کنونشن (روایت) کے خلاف بتایا جا رہاہے۔ کووند کی سربراہی والی اس کمیٹی میں دیگر لوگوں کے علاوہ وزیر داخلہ امت شاہ، کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری، راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے سابق لیڈر غلام نبی آزاد کو بھی شامل کیا گیاہے۔ حالانکہ راجیہ سبھا میں موجودہ اپوزیشن لیڈر اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے کو اس میں شامل نہیں کیا ہے۔ ادھیر رنجن چودھری نے رکنیت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ انہوں نے کمیٹی میں کھرگے کی عدم شمولیت بھی بتائی ہے۔
بہرحال حکومت کی اس پیش رفت پر بڑے پیمانے پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی ایک یا دو بار پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جا چکے ہیں لیکن کسی وجہ سے یہ روایت ختم کردی گئی۔ 1967 تک ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا کے ایک ساتھ انتخابات ہوتے رہے۔ لیکن 1968 اور 1969 میں کچھ قانون ساز اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کر دی گئیں جس کے بعد 1970 میں لوک سبھا بھی تحلیل کر دی گئی۔ اس کے بعد سے پورے ملک اور ریاستوں کے لیے انتخابی شیڈول تبدیل ہوگیا۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس طرح کا تجربہ صرف ہندوستان میں نہیں ہونے جا رہا ہے، دنیا کے 2 یا 3 ملکوں میں پہلے سے ہی اس پر عمل کیا جا رہاہے۔ ہندوستان میں آخر اس طرح کا تجربہ کرنے کی تجویز پر ہنگامہ کیوں برپا ہے؟ درحقیقت اس حوالے سے جہاں حکومت کی نیت اور مقصد شک کے دائرے میں ہیں، وہیں اس کی فزیبلٹی (عملی جامہ پہنانے) پر بھی سوال کھڑا کیا جا رہا ہے۔ کیا ہندوستان جیسے بڑے ملک میں ایسا کرنا ممکن ہے کہ پارلیمانی، اسمبلی اور بلدیاتی انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ اور طے شدہ وقت میں کرائے جائیں؟ انتخابی اخراجات سے بچنے یا اسے کم کرنے کے لیے کیا جمہوری عمل میں قدغن لگانا مناسب ہے؟ کیا اس سلسلے میں درپیش آئینی و قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنا اور تمام ریاستوں اور سیاسی جماعتوں کو اس پر رضا مند کرنا حکومت کے لیے آسان ہوگا؟ اس طرح کی انتخابی اصلاحات کا نفاذ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس میں نہ صرف عملی چیلنجز درپیش ہیں بلکہ پیچیدہ قانونی اور آئینی تحفظات بھی شامل ہیں۔ ہندوستانی آئین میں مختلف قانون ساز اداروں کے لیے مقررہ اصول و ضوابط کا تعین ہے، اس لیے ان کے انتخابی نظام الاوقات میں ہم آہنگی ایک آئینی معاملہ ہے۔
ابھی تک کی جو صورتحال ہے، اس سے نہیں لگتا کہ اس معاملے پر اتفاق رائے قائم ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس نئی تجویز کو عملی شکل دینے کے لیے ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی۔ اور حکومت نے اس کے لیے شاید تمام تیاریاں کرلی ہیں۔ اس معاملے پر ملک ایک طرح سے 2 خیموں میں منقسم ہوگیا ہے۔ خصوصاً اپوزیشن پارٹیاں اس نئے تجربے کے لیے قطعی تیار دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ جبکہ برسراقتدار خیمے اس کے فائدے شمار کرتے نہیں تھکتے۔ وہیں مخالف خیمہ کو اس میں نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ ’ون نیشن ون الیکشن‘کے حامیوں کا اہم جواز یہ ہے کہ اس سے انتخابی اخراجات میں کمی ہوگی جس سے سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور انتخابی نظام پر مالی بوجھ کم ہوگا۔ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ ایک مستحکم حکومت کے قیام میں مدد ملے گی اور بہتر طویل مدتی منصوبہ بندی اور پالیسی پر عمل درآمد کا موقع ملے گا۔اس کے علاوہ بار بار کی انتخابی سرگرمیوں سے ووٹروں کو ہونے والی پریشانیوں اور تھکاوٹوں میں کمی جیسے کئی فوائد گنوائے جارہے ہیں۔ جبکہ مخالفین کی نظر میں پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کا انعقاد ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت پڑے گی اور یہ ممکنہ لاجسٹک اور انتظامی چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے علاقائی جماعتوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ چھوٹی یا علاقائی سیاسی جماعتوں کے پاس قومی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہو سکتی ہے۔ ایک ساتھ الیکشن سے انتخابی عمل کے وقفہ میں اضافہ ہو جائے گا جس سے احتسابی عمل پر بھی منفی اثر پڑے گا۔سیاسی جماعتوںاور حکومتوں کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے ووٹروں کو ملنے والے مواقع میں کمی آ جائے گی جبکہ جوابدہی جمہوریت کی ایک نمایاں خوبی ہے۔
بہرحال سب کے اپنے اپنے جواز اور دلائل ہیں لیکن بحیثیت ایک قوم ہمیں صرف اقتدار کی حصولیابی اور حکومت سازی تک اپنے فیصلوں اور پالیسوں کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل موجودہ حکمرانوں کو بار بار عوام کے سامنے جانا اور اپنے ’کارناموں‘ کے لیے جواب دینا پسند نہیں ہے۔ وہ اپنے فیصلوں کو عوام پر تھوپنے کے اصول پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے بار بار عام لوگوں کے سامنے جانا اور عوام کے سوالوں کا جواب دینا انہیں اچھا نہیں لگتا۔ کہیں یہ نئی تجویز جوابدہی سے بچنے کا ایک راستہ تو نہیں ہے؟ آخر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ ہم نئے نظام سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ نیا نظام نافذ کرنے سے پہلے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم جمہوریت کو مزید بہتر بنانے کے عمل میں غیر جمہوری راستے پر توگامزن نہیں ہیں؟ کیا ’ایک ملک، ایک الیکشن‘ ہمارے لیے سب سے بڑی ترجیح ہے؟ کیا اس سے پارلیمنٹ میں مجرمانہ رجحان کے حامل افراد کی تعداد کم ہوجائے گی یا انتخابات میں پیسے کی طاقت کا استعمال رک جائے گا؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ ہماری ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں کسی بھی حالت میں جمہوریت سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کے انعقاد سے پیسہ بچانے کی بات انتہائی غلط ہے۔ ٹھیک ہے، ملک کی خوشحالی کے لیے اچھی معیشت بہت ضروری ہے لیکن ملک اور اس کے عوام سب سے پہلے ہیں۔ ملک میں جمہوریت پیسے سے بڑھ کر ہے۔ پیسہ خرچ کرنے سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے تو بہتر ہے۔ ملک کی جمہوریت انتخابی اخراجات سے بالاتر ہے۔ دراصل وفاقی طرز حکومت حکمراں طبقہ کے مقاصد کی راہ میں مشکلات پیدا کرتی ہے، جبکہ ارتکازی طرز حکومت ان کے مقاصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس لیے یہ ان کا ’اختیارات کے ارتکاز‘کی جانب ایک اور قدم ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS