مدھیہ پردیش میں ایک اور محاذ تیار ہو رہا ہے

0

پارلیمنٹ کے رواں بجٹ اجلاس کی ہنگامہ آرائیوںاور راہل گاندھی کو نااہل قرار دیے جانے کے خلاف احتجاج کی سیاست سے دور مدھیہ پردیش میں ایک سیاسی معرکہ تیار ہورہا ہے۔ مدھیہ پردیش میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں اس الیکشن کو وقار کا الیکشن بنا چکی ہیں۔ بی جے پی اعلان کرچکی ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اس الیکشن میں پارٹی کا چہرہ ہوںگے۔ اس سے قبل کانگریس پارٹی جوکہ شیوراج سنگھ چوہان کی موجودہ حکومت سے پہلے اقتدارمیں تھی اور شیوراج سنگھ چوہان کی 15سال کی حکومت کو بے دخل کرکے اقتدارمیں آئی تھی۔ اورجس کی قیادت کمل ناتھ کر رہے تھے مگر بعدمیں بی جے پی نے جیوتی راتیہ سندھیا کی کانگریس سے ناچاقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھیا خیمے کے کئی ممبران اسمبلی کو اپنے ساتھ ملالیا اور شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں دوبارہ بی جے پی کی سرکار قائم ہوگئی۔ بی جے پی ہر حالت میں مدھیہ پردیش میں اپنا اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ جبکہ کانگریس چاہتی ہے کہ بی جے پی کے ساتھ جاکر جن لوگوں نے کانگریس چھوڑی اورجس کی وجہ سے مدھیہ پردیش میں ایک منتخب سرکار گری ریاستی عوام تمام باغی اورمنحرف کانگریسیوںکو سبق سکھادیں اور ریاست میں دوبارہ کانگریس کی سرکار بن جائے۔ اس وقت مدھیہ پردیش میں کانگریس پارٹی کی اندرونی خلفشار نہیں کے برابر ہے۔ سندھیا گروپ جوکہ اپنے پرانے اثرورسوخ کی وجہ سے کافی حد تک مستحکم تھا کانگریس سے الگ ہوگیا تھا۔ سندھیا چاہتے ہیں کہ وہ یہ بات ثابت کردیںکہ گوالیار اور چمبل میں ان کی پارٹی اوران کے وفادار ابھی بھی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ سندھیا اور دگ وجے سنگھ میں سخت اختلافات ہیں اور سندھیا جب کانگریس کے اندر تھے تب بھی دونوں لیڈروں کے درمیان کافی رسہ کشی تھی۔ سندھیا کے بی جے پی میں جانے کے بعد یہ رسہ کشی برقرار ہے اوراس رسہ کشی نے اب پارٹی کی رقابت کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ پچھلے دنوں دگ وجے سنگھ جوکہ اپنے الگ انداز کی سیکولر سیاست کرتے ہیں سندھیا کے اثرورسوخ والے علاقے میں اپنی توجہ مبذول کی تھی۔ سندھیا نے دگ وجے سنگھ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوںکو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے دنوں دگ وجے سنگھ سے قربت رکھنے والے کئی لیڈروں نے کانگریس چھوڑکر بی جے پی میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔ اس کے جواب میں دگ وجے سنگھ نے کہا ہے کہ سندھیا سے زیادہ سیندھ وہ خود سندھیا کے گڑھ میں لگائیںگے۔ یہ بات درست ہے کہ کانگریس پارٹی بڑے جوش وخروش اوراتحاد کے ساتھ مدھیہ پردیش میں سرگرم ہے۔ پارٹی کو نئی مضبوطی دینے کے لئے اور تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے کانگریس نے کئی تنظیمی فیصلے لئے ہیں۔ ان میں پارٹی کی تنظیم نو شامل ہے۔ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ کمل ناتھ الیکشن میں کانگریس کا چہرہ ہوںگے اور اس کے علاوہ پارٹی نے 50نائب صدور بنانے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی کو عوامی سطح پر مقبول بنانے کی غرض سے 105جنرل سکریٹری بنائے گئے ہیں اور 64ضلع صدور مقرر کئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان اقدام سے مدھیہ پردیش میں کانگریس کو تنظیم کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ مدھیہ پردیش کے کانگریس کے کئی لیڈروں نے ان اعلانات کا خیرمقدم کیا ہے۔ ارون یادو اور جیتوپٹواری جیسے لیڈروں نے مرکزی قیادت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے کہ وزیراعلیٰ کا چہرہ الیکشن سے پہلے ہی بتا دیا ہے تاکہ پوری پارٹی جوش وخروش کے ساتھ الیکشن میں شامل ہوجائے۔ کانگریس کے تیور کو بھانپ کر سندھیا نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ پچھلے دنوں کانگریس کے ایک سابق ممبر اسمبلی برج بہاری پٹیریا نے کانگریس سے استعفیٰ دے کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ وہ کانگریس کے بہت پرانے ورکر اور بندیل کھنڈ میں برہمن طبقے سے ان کا تعلق ہے وہ دیوری سیٹ سے الیکشن لڑچکے ہیں اورساگرضلع کی تمام اسمبلی سیٹوںپر ان کا اثرورسوخ ہے۔ وہ کافی دولت مند ہیں۔ وہ 1998سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اتنی پرانی وابستگی اور بی جے پی کے بڑے لیڈروںکو الیکشن میں ہرانے والے پٹیریا نے بی جے پی میں شامل ہوکر اس پورے خطے میں کانگریس کو ایک بڑا جھٹکا دیا ہے۔
اس کے علاوہ پچھلے دنوں کمل ناتھ کے قریبی سمجھے جانے والے ہرش یادو نے بھی کانگریس چھوڑکر بی جے پی شمولیت اختیارکرلی ہے۔ اس کے علاوہ وینیت پٹیریا نے جوکہ برج بہاری پٹیریا کے بھتیجے ہیں نے بھی کانگریس چھوڑکر بی جے پی میں شمولیت اختیارکی ہے۔ وینیت پٹیریا کی بیوی جوکہ دیوری ضلع میں پنچایت کی چیئرمین ہیں بی جے پی میں شامل ہوگئی ہیں۔ یہ تمام لیڈر بی جے پی کے امیدوار بننے والے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برج بہاری پٹیریا یا ان کا بھتیجہ دیوری سیٹ پر بی جے پی کے امیدوار ہوںگے۔ ریاستی وزیر بھوپیندرسنگھ کا کہنا ہے کہ بندیل کھنڈ کے کئی بڑے نام بی جے پی میں واپس آسکتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ ممبران اسمبلی بھی ان کے رابطے میں ہیں۔ انہوںنے یہ بات واضح کردی ہے کہ ان کی پارٹی اس بات کی گارنٹی نہیں دے گی کہ 2023 کے اسمبلی انتخابات میں ان لوگوںکو ٹکٹ ملے گا۔ کانگریس پارٹی کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے بڑے پیمانے پر کانگریس کے چھوٹے بڑے لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کردیا ہے۔ بی جے پی کے سامنے ایک وہ بھی سروے ہے جس میںیہ بات سامنے آئی ہے کہ موجودہ سرکار کے خلاف ریاستی عوام میں ناراضگی ہے۔ آر ایس ایس کو بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف کئی سطحوںپر ناراضگی ہے۔ بی جے پی کانگریس کے لیڈروں، سابق اورموجودہ ممبران اسمبلی کو پارٹی میں شامل کرکے اس صورت حال سے نمٹنا چاہتی ہے۔ اس پوری کارروائی میں سندھیا کا رول کافی اہم ہے جوکہ سابق کانگریسی ہیں اور کانگریس کے چھوٹے بڑے لیڈروں سے ان کے مراسم ہیں۔ وہ کئی لیڈروں کو بی جے پی میں لاسکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 2023کے الیکشن میں سندھیا کس حد تک شیوراج سنگھ چوہان عرف ماما کا کتنا ساتھ دیںگے۔ جیوتی رادتیہ ندھیا مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ جبکہ دگ وجے سنگھ اورکمل ناتھ کے خیموں میں اتحاد تھا اور وہ دونوں سندھیا کو وزیراعلیٰ بنانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہی اختلافات کی وجہ تھی جوکہ کمل ناتھ کی حکومت کے زوال کا سبب بنی۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS