الیکشن شیڈیول سے قبل اُمیدواروں کا اعلان صحیح فیصلہ : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

بی جے پی 5میں سے 3 ریاستوں میں شاندار کامیابی کے ساتھ حکومت تشکیل دینے سے اتنی زیادہ خوش ہے کہ اُس نے 2024 کے الیکشن کی بساط پر اپنی گوٹیاں فٹ کرنے کے لیے ابھی سے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ مرکزی دفتر دہلی میں منعقد2 روزہ کانفرنس میں 350سے زیادہ نشستوں پر کنول کھلانے کا ہدف پانے کے لیے نئی حکمت عملی پرکام کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی موجودگی میں طے پایا کہ چیف الیکشن کمیشن کی جانب سے پارلیمانی انتخابات کے شیڈیول کے اعلان سے قبل جنوری میں بی جے پی کا قلعہ تصور کی جانے والی سیٹوں پر اُمیدواروں کے ٹکٹ فائنل کرنے کے علاوہ 158 اُن سیٹوں پر بھی اُمیدواروں کی فہرست کوحتمی شکل دے دی جائے گی،جن پربی جے پی کے اُمیدوارکبھی جیت نہیں سکے یا پھر دوسرے مقام پر رہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ تاریخوں کے اعلان کے بعد اُمیدوار طے کرنے کا جھنجٹ نہیں رہے گا اور ’بھارت سنکلپ یاترا‘ سے تیار ماحول میں اُمیدواروں کو ووٹروں کے درمیان پہنچنے اور پارٹی کے ترقیاتی کام گناتے ہوئے اپنی بات رکھنے کا بھرپور موقع مل جائے گا۔
بی جے پی نے مدھیہ پردیش میں ایگزٹ پولوں کے نتائج کوناکام اور کانگریس کے حق میں چل رہی ہوا کا رُخ اپنی جانب موڑتے ہوئے 230 اسمبلی سیٹوں میں سے 163 پر شاندار جیت درج کرکے پھر سے حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔اسے54زیادہ نشستوں کے ساتھ48.55فیصد ووٹ ملے۔ 2018میں بی جے پی نے41.02ووٹ شیئر حاصل کیے تھے۔ حکومت سازی کا سنہرا خواب دیکھ رہی کانگریس ہدف سے بہت پیچھے رہ گئی۔ وہ 40.40فیصد ووٹوں کے ساتھ صرف 66سیٹیں ہی حاصل کر سکی۔ 2018میں کانگریس کو 114سیٹیں اور 40.89 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اسی طرح 200 نشستوں والی ریاست راجستھان کی199 سیٹوں پر ہوئے انتخابات میںبی جے پی نے 115سیٹوں پر فتح حاصل کی۔ اُسے41.69فیصد ووٹ ملے۔ کانگریس کو 69 نشستوں پر اطمینان کرنا پڑا۔ اُسے 39.53 فیصد ووٹ ملے۔بی جے پی کو گزشتہ الیکشن کے مقابلے 44سیٹوں کا فائدہ ہواتو کانگریس کو39سیٹوں کا نقصان ہوا۔2018میں بی جے پی کی73سیٹیں اور ووٹ فیصد 38.7 تھا۔ 99 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے حکومت بنانے والی کانگریس کا ووٹ فیصد 39.3 تھا۔ چھتیس گڑھ کی 90 نشستوں میں سے بی جے پی نے 54 سیٹیں جیت کر 46.27 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ صوبے میں واپسی کا خواب دیکھ رہی کانگریس کو صرف 35سیٹیں ملی۔ اُسے 42.23 فیصد ووٹ ملے۔2018 کے مقابلے بی جے پی کو39سیٹوں کا فائدہ ہوا توکانگریس کو 35نشستوں کا خسارہ اُٹھانا پڑا۔ ہندی پٹی میں شکست سے دوچار ملک کی سب سے پُرانی پارٹی کانگریس کے لیے تلنگانہ فتح ہر لحاظ سے بہتر رہی۔ 119 نشستوں میں سے کانگریس نے64سیٹوں پر جیت کا پرچم لہرایا۔اس نے 39.40فیصد ووٹ شیئر حاصل کیے۔ 2018 میں اسے19سیٹیں ملی تھیں اور ووٹ فیصد 28.43 تھا۔ کانگریس کو 45 سیٹوں کا فائدہ ہوا۔ دوسری جانب حکمراں جماعت بی آر ایس کو صرف 39 نشستیں حاصل ہوئیں۔ 37.35 فیصدووٹ پانے والی بی آر ایس کو 49 سیٹوں کا خسارہ ہوا۔گزشتہ الیکشن میں اسے 88 سیٹیں ملی تھیں۔ 13.9 فیصد ووٹ شیئر حاصل کرنے والی بی جے پی کو8 نشستیں ملیں۔ 2018 میں بی جے پی کی ایک سیٹ تھی۔ اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو مدھیہ پردیش میں کانگریس کو 40.40 فیصد ووٹ پڑے،جو گزشتہ انتخابات 40.89 فیصد سے 0.49 فیصد کم ہیں۔ راجستھان میںکانگریس کو 39.53 فیصد ووٹ ملے، جوگزشتہ الیکشن 39.3 فیصدسے0.23فیصد زیادہ ہیں۔اُسے چھتیس گڑھ میں42.23فیصد ووٹ پڑے،جو گزشتہ الیکشن 43فیصد سے0.77فیصد کم ہیں۔ تلنگانہ میں کانگریس کو 39.40 فیصد ووٹ حاصل ہوئے،جو گزشتہ انتخابات28.43 فیصدسے 10.97 فیصد زیادہ ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی کو مدھیہ پردیش میں 48.55 فیصد ووٹ پڑے، جو گزشتہ الیکشن 41.02 فیصدسے7.53 فیصد زیادہ ہیں۔ راجستھان میں اسے 41.69فیصدووٹ ملے،جو گزشتہ چناؤ38.7فیصد سے تقریباً3فیصد زیادہ ہیں۔چھتیس گڑھ میں46.27فیصد ووٹ آئے، جو گزشتہ انتخابات 33فیصد سے 13.27 فیصد زیادہ ہیں۔تلنگانہ میں بی جے پی کو 13.90 فیصد ووٹ حاصل ہوئے،جو گزشتہ چناؤ 7فیصد سے 6.90 فیصد زیادہ ہیں۔بی جے پی کو انتخاب میں مرکزی وزراء اوراراکین پارلیمنٹ کو اُتارنے کا بڑا داؤ کھیلنے کا فائدہ پہنچا۔
انتخابات میں فتح ہی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے۔ اس کے باوجودکانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم کے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں 40 فیصد ووٹ شیئر اور اسے 2018 کے برابر بتانا بے فیض اور بے معنی ہے۔ کانگریس کا ووٹ فیصد 2صوبوںمیں بڑھا تو 2 میں کم ہوا ہے،جبکہ بی جے پی کا ووٹ فیصد چاروں صوبوں میں بڑھا ہے۔ اُمید وں کے خلاف آئے 5ریاستوں کے نتائج میں کانگریس کی کراری شکست پر مشہور صحافی اور تجزیہ نگار اشوک وانکھیڑے کا کہنا ہے کہ ایک لحاظ سے کانگریس کا ہار نا ٹھیک رہا۔اگر کانگریس جیت جاتی تو اپوزیشن کا اتحاد’انڈیا‘ ٹوٹ جاتا۔ فتح کے بعد کانگریس کسی دوسری جماعت کو بھاؤ نہیں دیتی۔ 5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ’انڈیا‘ اتحاد نے مشترکہ اُمیدوار کھڑے نہیں کیے اور کانگریس نے اکیلے اپنے دم پر چناؤ لڑا۔ بڑبولاپن بھی کانگریس کو مہنگا پڑ ا۔ سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ کو حکومت سازی کا اس قدریقین تھا کہ انہوں نے انڈیا اتحادی اور صوبے میں یادو کے خاصے ووٹ کی پرواہ کیے بغیر نہ صرف سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اور سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے لیے غلط بیان بازی کی،بلکہ ناپسندیدہ کلمات بھی ادا کیے۔اسی طرح الیکشن میں مبینہ طور پر بی جے پی کی حمایت کرنے والے افسران کی سرزنش کے لیے ان کی فہرست طلب کی گئی۔مانا جا رہا ہے کہ اگر کانگریس ایس پی یا بی ایس پی کے ساتھ مقامی یا صوبائی سطح پر تال میل کرتی تویقینی طور پر سیٹیں بڑھ جاتیں اور2024کے پارلیمانی انتخابات میں اس کا فائدہ پہنچتا۔راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ ندی کے دو کناروں کی طرح یا پھر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے نظر آئے۔یہاں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اورعام آدمی پارٹی وغیرہ سے تال میل تو دُور، ان سے بات چیت تک نہیں کی گئی۔چھتیس گڑھ میں برسراقتدار کانگریس جماعت کا کام بہت اچھا اور پوزیشن مضبوط تھی،لیکن بی جے پی کے دھان پرایم ایس پی اور مہتاری بندھن یوجنا سے پانسا پلٹ گیا۔ کئی پارٹی رہنماؤں کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کی کارروائی بھی مؤثر رہی۔تینوں صوبوں میں کانگریس کی شکست کو کسی نے غرور کی ہار تو کسی نے چھوٹی جماعتوں کو ساتھ نہ لینے کو اہم وجہ بتایا۔کسی نے زیادہ اعتماد تو کسی نے ایگزٹ پول کے نتیجوں پربھروسے کو سبب قرار دیا۔ انتخابات میں شکست سے پارٹی میں زبردست مایوسی ہے۔ کانگریس نے راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت گنوائی تو بڑی اُمیدیں پالنے والی کانگریس مدھیہ پردیش میں بھی حکومت سازی میں ناکام رہی۔ ویسے بھی سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیںہے۔آر ایس ایس کی حمایت والی بی جے پی منظم طریقے سے اپنی بات گھرگھر پہنچانے میں یقین رکھتی ہے، جبکہ کانگریس میں اس کا فقدان ہے۔ کانگریس کو شکست کے گرداب سے باہر نکل کر عام انتخابات کے لیے عوام کے درمیان جاکر دلوں میں جگہ بنانے کی ضرورت ہے۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہر سطح کے کانگریسی نیتا کھادی کے زرق و برق لباس، گلے میں پڑے ہاتھ چھپے ترنگے گم چھے اور دفتروں میں دھونی رمائے بیٹھنے کے مکڑ جال سے باہر نکل کر پارٹی کی پالیسیوں کو گھر گھر پہنچانے اور رائے دہندگان سے سیدھے طور پر جڑنے کو یقینی بنائیں گے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS