محمد حنیف خان
اسرائیل اور فلسطین جنگ کا خاتمہ کب ہوگا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔فلسطینی اور اسرائیلی دونوں جلد از جلد اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔عام فلسطینی جنگ بندی کا خواہاں اس لیے ہے تاکہ ان کی زندگی جس المیے سے دوچار ہوئی ہے، اس سے انہیں کچھ راحت مل سکے،بے یقینی کے جو بادل منڈلا رہے ہیں وہ چھٹیں اور زندگی تباہ سہی مگر کم از کم انہیں اس بات کا یقین تو آسکے کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ ان کی اس وقت حالت زندوں کی طرح بالکل نہیں،ہر آن ان کا سامنا موت سے رہتا ہے۔
اسرائیلی اس لیے جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ ان کے مغویہ اہل خانہ زندہ واپس آسکیں،انہیں اس بات کا علم ہے کہ جنگ جتنی زیادہ طویل ہوتی جائے گی ان کی زندگی کے امکانات معدوم ہوتے جائیں گے،کیونکہ انہوں نے دیکھا ہے کہ خود ان کی فوج کے ہاتھوں وہی افراد مارے جا رہے ہیں جن کی زندگی کے لیے یہ جنگ چھیڑی گئی تھی۔حماس کے ترجمان ابو عبیدہ بھی اس بات کا اعلان کرچکے ہیں کہ مغویہ افراد کی ایک کثیر تعداد اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوچکی ہے حالانکہ انہوں نے کسی حتمی تعداد کی وضاحت نہیں کی ہے، لیکن اس کی وجہ سے اسرائیل میں مظاہرے ہورہے ہیں اور جنگی کابینہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں مغویہ افراد کو زندہ واپس لائے، کسی بھی طرح کے معاہدے میں ان افراد کی بازیابی کو اولیت دی جائے۔ جنگی کابینہ اور اس کے سربراہ نیتن یاہو دوطرفہ کھیل کھیل رہے ہیں،ایک طرف وہ دباؤ کی وجہ سے اسرائیلیوں کی بازیابی کے بھی خواہاں ہیں تو دوسری جانب وہ اپنی سیاسی مضبوطی کے لیے جنگ کا خاتمہ بھی نہیں چاہتے ہیں،اسی لیے وہ بار بار اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مکمل فتح ہی ان کا مطمح نظر ہے۔دوسری طرف حماس نے یہ بات واضح کردی ہے کہ جب تک اسرائیلی فوج پوری طرح سے غزہ سے باہر نہیں نکل جاتی، اس وقت تک جنگ بندی اور مغویہ افرادکی رہائی پر کوئی بات نہیں ہوسکتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطینیوں کا سابقہ ایک ایسے دشمن سے ہے جو اپنے ظلم کو بھی اپنے ہی حق میں استعمال کرنے کے ہنر سے واقف ہے، جو مارتا بھی ہے اور چیختا بھی ہے، جو گرگٹ سے بھی زیادہ رنگ بدلنے میں ماہر ہے۔ اسرائیل گھریلو دباؤ کی وجہ سے جنگ بندی کے لیے عرب ممالک کو ثالث بھی بنا رہا ہے اور باقی ماندہ مغویہ افراد کے بدلے ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی کے ساتھ دو ماہ کی جنگ بندی پر بھی رضامندی دکھاتا ہے مگر دوسری جانب وہ فلسطینیوں کی ناکہ بندی میں کسی طرح کی ڈھیل بھی نہیں دینا چاہتا، امدادی اشیاء کو ضرورت مندوں تک پہنچنے بھی نہیں دیتا ہے، وہ اقوام متحدہ کی تنظیم United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees in the Near Eastاونروا(UNRWA)کی امداد کو نہ صرف روکتی ہے بلکہ اس کے خلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈہ بھی کرتی ہے کہ یہ وہ تنظیم ہے جس کے12 افراد اسرائیل پر حملے میں شامل تھے جس کے بعد اس کے حلیف ممالک امریکہ،جرمنی اور آسٹریلیا وغیرہ نے اس کی امداد بند کردی ہے۔
امریکہ کے ذریعہ ’’اونروا‘‘ کی امداد بند کیے جانے پر امریکی صدر کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔30جنوری کو واشنگٹن پوسٹ میں جوش روگن (Josh Rogin)کا مضمون Biden’s ‘catastrophic’ cutoff of Palestinian aid is more than inhumaneشائع ہوا جس میںاس پالیسی کو احمقانہ پالیسی سے تعبیرکرتے ہوئے لکھا ہے کہIt’s an inhumane and strategically stupid policy.۔مضمون نگار جوش راگن فلسطینیوں کے درد و کرب کو محسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کا فلسطینیوں کے لیے ضروری خوراک اور صحت کی امداد کو معطل کرنے کے لیے گھٹنے ٹیکنے والا رد عمل ان کے مصائب کو مزید گہرا کرے گا۔
در اصل ’’اونروا‘‘ وہ تنظیم ہے جوفلسطینی مہاجرین کی امداد کے لیے کام کرتی آئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 5.9ملین رجسٹرڈ فلسطینی مہاجرین کے علاوہ شام،لبنان اور اردن میں مقیم فلسطینیوں کے لیے امدادی کام کر رہی ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے میں یہ تنظیم 5 لاکھ فلسطینی بچوں کی تعلیم کے لیے 700اسکول چلا رہی ہے۔150ہیلتھ سینٹرز قائم کیے ہیں، جہاں سالانہ 9ملین سے زیادہ مریض علاج کے لیے پہنچتے ہیں۔
یہ تنظیم اسرائیل کے نشانے پر کافی پہلے سے تھی، برطانوی اخبار دی گارجین میں شائع اپنے مضمون’’It’s right to probe UNRWA’s problems – yet what would replace it? Its critics have no answer‘‘میںایٹن نیشین(Etan Nechin)نے اسرائیلی سینئر سیاسی کمنٹیٹر ایرل کہانا (Ariel kahana)کا یہ جملہ نقل کیا ہے: UNRWA is “perpetuating the conflict”, and that Israel has its first opportunity in 75 years to replace the agency, adding: “We must not pass up on it.”
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل گزشتہ 75برس سے ایسے موقع کی تلاش میں تھا جب ’’اونروا‘‘ کوفلسطین سے باہر کرکے وہاں کے باشندوںکو دنیا سے ملنے والی امدادسے محروم کردے،وہ اس موقع کو کھونا نہیں چاہتا ہے،اسی لیے یہ پروپیگنڈہ کیا ہے،حالانکہ ابھی تک اس کی تصدیق بھی نہیں ہوسکی ہے کہ اس کے 12ملازم اس حملے میں واقعی شامل تھے یا نہیں۔ایٹن نیشین نے بڑی جرأت کے ساتھ دنیا سے یہ سوال کیا ہے کہ ٹھیک ہے آپ اسرائیل کے غیرمصدقہ الزامات پر یقین کرتے ہوئے اگر اس کی امداد بندکرتے ہیں تو آپ کے پاس متبادل کیا ہے؟ اور یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اور اس کے حلیفوں کے پاس اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔یہ سب اسرائیل کی جنگی کابینہ اور اس کے سربراہ نیتن یاہو اور اس کی انتظامیہ کر رہی ہے، صرف اسی کی وجہ سے اس جنگ کا کوئی حل نہیں نکل پارہا ہے اور یہ بات اب عالمی میڈیا بھی کہنے لگا ہے۔نیویارک ٹائمس میں 27 جنوری کو سرج شمیمن (Serge Schmemann) کا ایک مضمونNetanyahu’s Cynical Political Game شائع ہوا ہے۔یہ جملے دیکھئے:
the United States and Arab states, anxious to avoid a regional war, are trying to mediate an end to the conflict. But Mr. Netanyahu blocks the way.
یعنی ریاستہائے متحدہ اور عرب ریاستیں، علاقائی جنگ سے بچنے کے لیے فکرمند ہیں، تنازع کے خاتمے کے لیے ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مسٹر نیتن یاہو راستہ روکتے ہیں۔مضمون نگار نے بہت صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ نیتن یا ہو ایک مذموم کھیل کھیل رہے ہیں،جس سے اس کے اتحادی اوربہی خواہوں کے ساتھ ہی اسرائیلی بھی تنگ آرہے ہیں۔
حق گو دانشوراسرائیل،امریکہ اور اس کے حلیفوں کوگھما گھما کر آئینہ دکھا رہے ہیں مگر وہ اپنا اصل چہرہ دیکھنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں،چونکہ ان سب کا چہرہ اتنا مکروہ اور بدنما ہوچکا ہے کہ وہ اپنے ہی چہرے کو دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں۔اسرائیل نے وجود میں آتے ہی جس خونخواری اور بربریت کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اس سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ کس طرح بچوں،بزرگوں اور عورتوں کو قتل کر رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق اب تک 26000سے زائد فلسطینیوں کو وہ قتل کرچکا ہے اور اس قتل پر اسے شرمندگی کے بجائے فخر ہے۔وہ فلسطینیوں کی زندگی کو تنگ کرنے کے نت نئے حربے اختیار کرتا رہتاہے۔
[email protected]