مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
غصہ انسان کوکمزورکر دیتاہے کبھی کبھی غصہ میں انسان وہ کام کر جاتاہے کہ اس کے غصہ کااثر نسلوں تک پہنچتاہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی بھی اجیرن بن جاتی ہے ۔انسان مجموعہ اضداد ہے، طاقتور ایسا کہ سمندر اور پہاڑ بھی اس کی ٹھوکروں میں ہے اور کمزور ایسا کہ پانی کا معمولی سا تلاطم اور پہاڑ کا ایک سنگ ریزہ بھی اس کی موت کے لئے کافی ہے، محبت کرے تو شبنم اور بادِ نسیم سے بھی زیادہ خنک اور نفرت پر اتر جائے تو آتش فشاں بھی اس کی گرمی عداوت پر شرمائے، انسانی فطرت میں ایک اہم عنصر غصہ، غیظ و غضب اور جوش و انتقام کا ہے، یہ ایک آگ ہے جو انسان کے سینہ کو سلگا کر رکھ دیتی ہے اور اس کا انگ انگ اس کی حرارت سے دہک اٹھتا ہے، آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے ، زبان بے قابو ہوجاتی ہے اور جب غصہ شدید ہوتو اپنے اعضا پر بھی انسان کی گرفت باقی نہیں رہتی ؛ اسی لئے رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ : غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔گویا غصہ کی حالت میں انسان شیطان کا نمائندہ بن جاتا ہے اور شیطان اس کو اپنے مقصد ومنشا کی تکمیل کے لئے ذریعہ بناتا ہے۔
غصہ کی کیفیت انسان کو دینی اعتبار سے بعض اوقات سخت خسارہ میں ڈال دیتی ہے ، زبان سے کفریہ کلمات نکل جاتے ہیں، آدمی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو سراسر تقاضہ دین و ایمان کے مغائر ہوتی ہیں، یہی جوشِ غضب انسان کو قتل و قتال اور سب و شتم تک پہنچا دیتا ہے، دینی نقصان تو ہے ہی، دنیوی نقطہ نظر سے بھی انسان کچھ کم نقصان سے دو چار نہیں ہوتا، بہت سے واقعات ہیں کہ بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں، بعض مغلوب العقل حضرات خود کشی کر بیٹھتے ہیں، شدتِ غضب میں اپنا ہی سامان توڑ پھوڑ کرنے سے گریز نہیں کرتے، غصہ کی وجہ سے انسان دماغی مریض بھی بن سکتا ہے اور قلب پر حملہ سے بھی دو چار ہو سکتا ہے اگر معاشرہ کے مفاسد کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر برائیاں غصہ ہی کی وجہ سے ہیں، خاندانوں کی باہمی نفرت ، میاں بیوی کے درمیان ذہنی فاصلے، ایک دوسرے کی عزت نفس سے کھلواڑ، صلح کے مواقع تلاش کرنے کے بجائے مقدمہ بازی اور جنگ و جدال کا تسلسل، سماج کی یہ مہلک بیماریاں نوے فیصد غصہ ہی کے سبب ہیں ؛ اسی لئے اسلام میں غصہ کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور غصہ پر قابو پانے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ ہمارے علاقہ میں لاتعداد مسائل سامنے آتے ہیں ان کی بنیاد ہی غصہ کی وجہ سے ہے ،ایک بندہ ہمارے محلہ کامیرے پاس آیاکہنے لگاکہ مولوی صاحب غصہ میں میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں کیافرماتے ہیں طلاق ہوگئی ہے یانہیں ؟کیوں کہ میں نے غصہ کی حالت میں دی ہے ۔میں نے کہابھائی پیار میں تو آج تک کسی نے اپنی بیوی کوطلاق نہیں دی غصہ میں ہی دی جاتی ہے جناب والا پہلے سوچ لیتے تو آج یہ دن نہ دیکھناپڑتا بھائی صاحب!نبی پاک ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : جیسے ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے، اسی طرح غصہ ایمان کو ، ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے قریب ہو جاتا ہے۔
آپ ؐنے فرمایا کہ : بدترین آدمی وہ ہے جس کو غصہ جلد آئے اور ختم ہو دیر سے اور بہترین آدمی وہ ہے جسے غصہ دیر سے آئے اور جلد چلا جائے(ترمذی )
ایک بار آپ ؐ کا گزر کچھ لوگوں پر ہوا ، کچھ لوگ پتھر اٹھا رہے تھے، آپ ؐنے دریافت فرمایا : یہ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : پتھر اٹھارہے ہیں، لوگ ان کی بہادری بیان کرناچاہ رہے تھے ، آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تم کو ان سے بھی بہادر آدمی نہ بتلائوں؟ پھر ارشاد فرمایا : ان سے بھی بہادر وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے، ایک اور روایت میں ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس سے آپ ؐگزرے،جو منتشر حالت میں تھے، آپ ؐنے دریافت فرمایا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : فلاں پہلوان ہے کہ جس پہلوان سے بھی کشتی لڑتا ہے اسے زیر کر دیتا ہے، آپ ؐنے ارشاد فرمایا : کیا میں تم کو اس سے بھی زیادہ پہلوان شخص کے بارے میں نہ بتائوں؟ اس سے بھی بڑا بہادر وہ شخص ہے جس پرکوئی شخص ظلم کرے اور وہ اپنے غصہ کو پی جائے، اس نے اپنے غصہ پر بھی غلبہ پایا اور اپنے شیطان پر بھی اور اپنے حریف کے شیطان پر بھی (مجمع الزوائد) ایک اور روایت میں ہے کہ اصل بہادر وہ ہے کہ جسے غصہ آئے خوب غصہ آئے، چہرہ سرخ ہو جائے اور بال کھڑے ہو جائیں، پھر بھی وہ اپنے غصہ پر قابو پالے۔ اسی لئے رسول اللہ ؐخاص طور پر غصہ سے بچنے کی نصیحت فرماتے، ایک صاحب نے آپ ؐسے نصیحت کی خواہش کی ، آپ نے فرمایا غصہ نہ کرو، وہ بار بار پوچھتے رہے اورآپ بار بار یہی جواب دیتے رہے ، حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی ؓ نے عرض کیا: کہ مجھے کوئی مفید مگر مختصر نصیحت فرمائیے:آپ ؐنے ارشاد فرمایا: غصہ نہ کرو، وہ بار بار نصیحت کی درخواست کرتے رہے اور آپ ؐہر بار یہی جواب ارشاد فرماتے۔
حضرت ابو دردا ؓ نے درخواست کی کہ ایسا عمل ارشاد فرمایا جائے جو مجھے جنت میں داخل کردے، فرمایا : غصہ نہ کرو۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایسا عمل جاننے کی خواہش کی جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہو، اب بھی یہی ارشاد ہوا کہ غصہ نہ کرو ۔ ایک صحابی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ؐسے نصیحت کی درخواست کی ، آپ ؐنے غصہ سے بچنے کو فرمایا، میں نے اس میں غور کیا تو محسوس کیا کہ غصہ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ امام جعفر کا قول منقول ہے کہ غضب ہر برائی کی کلید ہے، حضرت عمرؓ اکثر اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے کہ جو شخص حرص، خواہش نفس اور غصہ سے بچ گیا وہ کامیاب ہوگیا، مشہور محدث عبد اللہ بن مبارک سے دریافت کیا گیا کہ آپ ایک جملہ میں حسن اخلاق کو بتائیے ، امام صاحب نے فرمایا : غصہ چھوڑ دو۔ اسی لئے غصہ کو پی جانے پر بڑا اجر ہے۔