عبدالسلام عاصم
ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کی تثلیث دنیا میں شاید واحد نظیر ہے جو ہمسائیگی کے اسرار و رموز اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کوسمجھنے میں سیاسی علوم کے اُن طلبا کے چودہ طبق روشن کرسکتی ہے جو قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ برصغیر کے اس منظرنامے سے امریکہ، روس اور چین سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں نے بھی خوب استفادہ کیا۔ دیگر ترقی یافتہ اقوام آج بھی تینوں کے وسائل اور خصائل کو اپنے حساب سے بھناتی رہتی ہیں۔
ہندوستان کے بدلے ہوئے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی منظرنامے کو سامنے رکھ کر اگر تینوں ملکوں کی سماجی ہمسائیگی، بین حکومتی تعلقات اورسیاسی بصیرتوں بشمول عزائم کا جائزہ لیا جائے تو موٹے طور پر یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش میںمجموعی سیاسی استحکام نے بعض خلل آمیز واقعات کے باوجود دونوں کے باہمی تعلقات کو مثبت رخ پر زیادہ آگے بڑھایا ہے۔ پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل اور فوج کے اقتدار پسندانہ عزائم نے ہند پاک رشتے کو اُس طرح پنپنے نہیں دیا جسے مثالی ہمسائیگی کا نام دیا جا سکے۔ ہند پاک تعلق کو عبرت ناک بنانے میں اگر کسی کا کوئی یوگدان/کردار بالکل نہیں ہے تو وہ دونوں ملکوں کے عوام ہیں جن کے تعلق کے خواب دہائیوں سے ویران چلے آرہے ہیں۔
بین مذاہب ہم آہنگی کے پرچار میں ویسے تو ہند و پاک دونوں کسی سے پیچھے نہیں، لیکن یہ پرچار اسٹیج کاروبار سے کبھی آگے کیوں نہیں بڑھ سکا، اس پر شاید اب تک کوئی مجلس آراستہ نہیں ہوئی۔ ہند پاک فرقہ وارانہ منافرت کی قیمت بظاہر دونوں طرف اقلیتیں ہی چکاتی ہیں لیکن نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زیادتی کبھی یکطرفہ نہیں ہوتی۔ البتہ ایک حلقے کا نقصان جہاں زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے، وہیں دوسرے حلقے کی زیادتی فطری طور پر فسطائیت میں بدل جاتی ہے۔ اس چکر ویو سے بنگلہ دیش باہر نکلنے میں بہت حد تک کامیاب نظر آتاہے۔ حالانکہ وہاں بھی عمل اور ردعمل کی سیاست وقفے وقفے سے سر اٹھاتی رہتی ہے۔
دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی کشمکش سے آلودہ خطے کے ماحول کو بدلنے میں کم و بیش ناکامی کے باوجود سیاسی محاذ پر پاکستان کے برعکس ہمارے حکومتی رہنماؤں نے تقسیم کے صدمے کو بھلانے اور ماضی کو دفن کرنے کی راست اور بالواسطہ کئی کوششیں کیں۔ ماضی قریب کے تاریخی دستاویزات میں اِن کوششوں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوششیں سقوط ڈھاکہ سے پہلے بھی کی گئی تھیں اور بعد میں بھی۔ شمال مغربی سرحد کے اُس پار سے اُن کوششوں کا بعض مواقع پر مثبت جواب دینے کی کوشش ضرورکی گئی لیکن کشمیر کے رُخ پر جارحانہ پاکستانی عزائم اور ہندوستان کے جوابی اقدام کے بعض ناگزیر ذیلی اور ضمنی نتائج نے ایک طرف جہاں جنت ارضی کو جہنم میں تبدیل کر دیا وہیں دو قومی نظریے کی ڈھاکہ میں تدفین کے باوجود بین مذاہب خلیج اتنی گہری ہوتی گئی کہ قدم قدم پر لگنے والی ٹھوکروں میں سے کوئی ٹھوکر سنبھلنے کی توفیق عطا نہیں کرسکی۔ قومیت کی 1947کی غلط تشریح کو 1971 میں درست کرنے کے فطری موقع سے اگر تینوں منقسم گھرانوں نے استفادہ کیا ہوتا تو وسائل اور جغرافیائی ساختیات کی وجہ سے ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش پورے خطے میں ایک مضبوط نیم وفاقی ایشیائی طاقت بن کر ابھر سکتے تھے اور اِن میں سے کوئی کسی چوتھے کا دست نگر بننے کا محتاج نہیں ہوتا۔
ایسا نہ ہونے کے اجتماعی نقصان میں بباطن سب کا حصہ ہے لیکن بظاہر پاکستان کا سب سے زیادہ اس لیے نظر آتا ہے کہ اُس نے دولخت ہونے اور ہندوستان کے ہاتھوں فوجی شکست کے بعد خود کو جنوبی ایشیا کا حصہ سمجھنے کے بجائے مغربی ایشیا کے ساتھ معاملات کو ترجیح دینا شروع کر دیا۔ اس کے جو اثرات مرتب ہونے تھے، وہ مشرق وسطیٰ سے افغانستان تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ صرف ایک زیاں سے دوسرے زیاں کی طرف بڑھنے کا سودا تھا۔ ایسا نہیں کہ اس بیچ سنگین اختلافات کو صحت مند اختلاف کی شکل دے کر بین سرحدی رشتے کو بین ملکی انسانی وسائل کے حق میں سودمند بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ زندگی کے ایک سے زیادہ شعبوں کی طرف سے اس رُخ پر اشتراک بھی کیا گیا۔ رکاوٹوں کے باوجود دونوں ممالک شملہ معاہدے سے لاہو ر اعلامیہ تک رُک رُک کر بڑھے، لیکن اس دشوار راہ پر قدموں کے سارے نشان کارگل کے طوفان نے مٹا دیے۔
سابقہ صدی کے وسط میں متحدہ ہندوستان تقسیم کیوں ہوا۔ اس پر ایک دوسرے سے متصادم اور ایک دوسرے کی تائید کرنے والی زائد از ایک آرا اور تجزیات اپنی تمام سچائیوں اور مبالغوںکے باوجود اب کسی کیلئے بہت زیادہ موجب ِتجسس نہیں رہیں۔ اس لیے اُنہیں دہرا کر کالم سیاہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ موجودہ پاکستان کا کیا بنے گا اس پردیکھا جائے تو مختلف خیالات و تجزیات میں اختلافات کم اور ہم آہنگی زیادہ نظر آتی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کے بیانات کو اگر اس رخ پر غور و فکر کیلئے اہمیت دی جائے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ پاکستان داخلی طور پر بالکل اُسی طرح تین ٹکڑے ہوچکا ہے جس طرح 1947 سے قبل متحدہ ہندوستان اور 1971 سے بہت پہلے مغرب اور مشرق کا غیر زمینی فاصلہ رکھنے والا پاکستان ہوچکا تھا۔ حتمی طور پردو لخت ہونے سے قبل اپنے مغربی اور مشرقی بازوؤں میں ربط کیلئے قومی اتحاد کا فاصلاتی نصابی کورس چلانے میں پاکستان کی فوجی قیادت کی ناکامی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے باوجود وہاں کے سیاسی ذمہ داران نے بھی فوجی دباؤ اور دیگر داخلی سیاسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے ٹوٹنے کا سارا الزام ہندوستان کے سر منڈھ دیا۔
حالات کے تازہ موڑ پر بھی پاکستانی سیاستدانوں کو ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کر کے فوج کے سیاسی عزائم کو ناکام بنانے سے کہیں زیادہ دلچسپی جمہوری مزاج کے اعتبار سے نسبتاً بدلے ہوئے ہندوستان کے سیاسی اور فوجی عزائم کے افسانے گڑھنے سے ہے۔ بین سرحدی الزام کا کھیل ویسے تو چھوٹے بڑے سبھی ممالک کھیلتے ہیں لیکن ہندوستان کو اس محاذ پر پاکستان کی طرح کسی کم مائیگی کا سامنا نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے ایک سے زیادہ محاذ پر ہماری خود کفالت ہمیں اپنا گھر سنبھالنے کیلئے ہر وقت پڑوسیوںکو کوسنے کی ترغیب نہیں دیتی۔ ہند-بنگلہ دیش تعلقات ہی دیکھ لیں۔ دونوں متحرک اختلاف بھی رکھتے ہیں اور بہتر ہمسائیگی سے دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ پہنچانے کیلئے باہمی طور پر سود مند اتفاقات سے بھی کام لیتے ہیں۔
ان سب کے باوجود بر صغیر کے اس منظر نامے کا ایک دلچسپ اور امید افزا پہلو یہ ہے کہ ہند، پاک اور بنگلہ دیش کے عوام ایک دوسرے کے قطعی دشمن نہیں۔ اس کا دوٹوک ادراک کر کے پاکستان کے ناعاقبت اندیش حکمراں چاہیں تو ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں سے جمہوریت کے رُخ پر مثبت استفادہ کرسکتے ہیں۔ بین سرحدی جمہوری تعلقات بہتر ہوں تو خانگی زندگی کو یکسوئی کے ساتھ بہتر بنانے میں زبردست مدد ملتی ہے۔ بنگلہ دیش کی نظیر بالکل سامنے ہے جس کی انتہائی متاثر کن معاشی اور سماجی ترقی نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری ترقی پذیر دنیا کے لیے موجبِ تحریک بنی ہوئی ہے۔ دنیا کے غریب ترین ممالک میںسے ایک کی حیثیت سے1971 میںآزاد ہونے والا بنگلہ دیش جاری دہائی کے اواخر تک دنیا کی چوٹی کی 25 معیشتوں میں شامل ہونے کی دوڑ میں ہے۔
اس عصری پس منظر میں آنے والے کل کو ایک ڈراونے خواب کے بجائے امکانات کی صبح میں بدلنے کیلئے ہند و پاک کے سیاسی ذمہ داروں کو مفروضات کے دائرے سے باہر نکل کر قومی اور علاقائی ذمہ داری کو رفتار زمانہ سے اس طرح ہم آہنگ کرنا ہوگا کہ بڑی طاقتیں اپنی لڑائی لڑنے کیلئے برصغیر کو میدان جنگ نہ بناسکیں۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے موجودہ عہد میں اگر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی الگ الگ نوعیت کی کمزوریاں جگ ظاہر ہیں تو اِن تینوں ملکوںکے پاس اِن کمزوریوں سے اپنی بہتری کے حق میں استفادہ کرنے کے وسائل بھی الحمدللہ محفوظ ہیں۔ کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی واحد صورت یہ ہے کہ کمزوریاں دور کی جائیں۔ اس کا نفسیاتی نسخہ یہ ہے کہ انسانی وسائل سے مالا مال تینوں ممالک رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کی اپنی بالواسطہ شناختوں کو قائم و دائم رکھتے ہوئے اپنے علاقائی انسانی رشتے کو اتنا مضبوط کرلیں کہ ایشیا میں بھی یوروپ کی وہ تاریخ دہرائی جاسکے جس نے عقائد کو کھوکھلا تو نہیں کیا لیکن اُن کا بے جا استحصال کرنے والی طاقتوں کی کرتب بازی کا میدان ویٹیکن تک محدود کر دیا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]