اکھیلیندر آریندو
حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ اس بار کے عام انتخاب میں بے روزگاری، مہنگائی اور ترقی اہم ایشوز کے طور پر حاوی رہنے والے ہیں۔ یہ ایشوز ووٹروں کے لیے اپنا ممبرپارلیمنٹ منتخب کرنے میں کام میں آئیں گے۔ گزشتہ پانچ سال میں ملک کے حالات میں کتنی بہتری آئی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مرکز اور ریاستی حکومتوں نے عوام کی بہتری کے لیے کتنی ذمہ داری سے کام کیے، یہ بھی رائے دہندگان پر اثرانداز ہوگا۔ اسی طرح 2019میں این ڈی اے حکومت نے کن اعلانات اور وعدوں کو پورا کیا اور کون سے اعلانات این ڈی اے مرکز اور اس کی ریاستی حکومتیں پورا کرنے میں ناکام رہیں، اس بار کے عام انتخاب میں عوام کے ان سارے ایشوز پر غور کرکے ووٹ ڈالنے کی بات حالیہ سروے میں آئی ہے۔
حالیہ سروے کے مطابق نوکری اور بے روزگاری کا ایشو لوگوں کے لیے سب سے اہم رہنے والا ہے۔ تمام ایسے لوگوں کی رائے ہے کہ معیشت پر ریاست اور مرکزی حکومت کو سب سے زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ وہیں پر سروے میں خواتین کو روزگار کے مواقع کم ہونے کی شکایت ہے۔ بے روزگاری کے علاوہ مہنگائی کا ایشو سب سے اہم ہے۔ روزمرہ کی اشیاء میں اضافہ سے بھی عام لوگوں میں خاصی ناراضگی ہے۔ خاص کر غریب، دیہی اور مزدوری کرکے کنبہ کی کفالت کرنے والے مزدوروں میں۔ لوئر مڈل اور مڈل کلاس کو بھی مہنگائی کے تعلق سے سب سے زیادہ شکایت ہے۔
اجولا اور مفت راشن اسکیم سے ہندوستان میں لوئرمڈل اور مڈل کلاس راحت محسوس کررہا ہے۔ غور طلب ہے کہ بی جے پی نے نئے انتخابی منشور میں غریبوں کو مفت راشن کی اسکیم میں اگلے پانچ سال مزید اضافہ کردیا ہے۔یقینا اس کا اثر الیکشن نتائج پر پڑے گا، کیوں کہ 2019میں لوئر مڈل اورمڈل کلاس نے مرکز کی مفت راشن اسکیم کو پسند کیا تھا۔آیوشمان یوجنا کو وسعت دیتے ہوئے غریبوں کے علاوہ ستر سال کے بزرگوں کو بھی دینے کی بات ضرور نئی ہے، اس سے کروڑوں بزرگوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔ اسی طرح گزشتہ پانچ سالوں میں ترقی کی اہمیت 48فیصد عوام نے قبول کی۔ سب سے دلچسپ رائے بدعنوان کے تعلق سے لوگوں میں دیکھنے کو ملی۔ محض8فیصد لوگوں نے بدعنوانی کو خاص توجہ دی یعنی 92فیصد لوگوں نے بدعنوانی کو کوئی خاص توجہ ہی نہیں دی، جب کہ دس سال پہلے بدعنوانی سب سے سنجیدہ ایشو ہوا کرتا تھا۔ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 5فیصد کے آس پاس تھی، لیکن اب بے روزگاری کی شرح 6.8فیصد کے آس پاس ہے۔ گزشتہ الیکشن میں بے روزگاری کے تعلق سے لوگ اتنے جارحانہ نہیں تھے جتنے آج ہیں۔بی جے پی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بے روزگاری، مہنگائی اور مسلسل قیمتوں میں اضافہ ہے۔ مہنگائی میں کچھ کمی آئی ہے، لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بھی عملی شکل دینی ہوگی۔ اسی طرح کروڑوں غریبوں کو بیت الخلا، نئی سوریہ گھر یوجنا کے تحت 300یونٹ مفت بجلی کے علاوہ اسٹارٹ اپ کے ذریعہ روزگار دینے کی قواعد کی گئی۔ پھر بھی نوکری اور بے روزگاری کا ایشو اس الیکشن میں اس طرح سے چھا گیا ہے شاید اس کے پہلے اس پر لوگ اتنے ناراض نہیں تھے۔ اس لیے کوئی بھی اتحاد اقتدار میں آئے اس کے سامنے کروڑوں نوجوانوں کو روزگار دینے اور مہنگائی کو کم و مستحکم رکھنے کا چیلنج ہوگا ہی۔
بی جے پی کا انتخابی منشور وزیراعظم مودی نے جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اگر پانچ سال اور ملتے ہیں تو وہ ہندوستان کو دنیا کی تیسری معیشت والا ملک بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، لیکن گزشتہ دس برسوں میں ملک میں کئی سطحوں پر تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کروڑوں نئے نوجوان ووٹر اس بار کے الیکشن میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ ان نوجوان رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کرنا ایک چیلنج ہی ہے۔ وہ روزگار چاہتے ہیں۔ مرکز میں حکومت بنانے والے اتحاد کو ان نوجوان رائے دہندگان کی خواہش کو ہر حال میں پورا کرنا ہی ہوگا۔ اسی طرح خواتین بھی تحفظ کے ساتھ ملازمت بھی چاہتی ہیں۔ وہ آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور اس میں مرکزی حکومت سے اپنی بہتری کے لیے امید بھی وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے این ڈی اے(بی جے پی) اور کانگریس یعنی انڈیا اتحاد دونوں خواتین کی معاشی حالت کو مضبوط کرنے کی بات اپنے انتخابی منشور میں کرتے نظر آتے ہیں۔ بیشک ملک کی شبیہ دنیا میں پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ کشمیر ایشو بھی ایک جھٹکے میں حل کرلیا گیا۔ مسلم خواتین کے تین طلاق جیسے قانون کو ختم کردیا گیا۔ برطانوی راج کے تمام غلامی کو قائم رکھنے والے قوانین کو ختم کردیا گیا یا تبدیل کردیا گیا۔ یہ آزادی کے بعد ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کے تحت کیا گیا۔ اسی طرح سے نئی تعلیمی پالیسی 2019-20میں نافذ کی گئی۔ اسے تعلیم کے شعبہ میں ایک انقلاب کے طور پر دیکھا گیا۔
اسی طرح خارجہ پالیسی کا تجزیہ کرنے والوں کا ماننا ہے کہ آزادی کے بعد پہلی بار ہے جب دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک بھی ہندوستان کے سامنے سرخم(نتمستک) کرتے نظر آئے۔جی-20 کی صدارت، ہندی، اردو و بنگلہ کو یو این او میں تجرباتی زبان کے طور پر منظوری ملنے، ہندوستانی زبانوں کو انگریزی سے زیادہ اہمیت دلانے اور چین کے آگے سینہ تان کے کھڑے ہونے اور روس-یوکرین جنگ میں بالواسطہ ثالثی جیسی تمام حصولیابیاں ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ رہی ہیں۔ یہ حصولیابیاں مرکزی حکومت کی بہتر اور عملی خارجہ پالیسی کا حصہ رہی ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی سے پاک ہندوستان کی شبیہ پہلی بار گزشتہ دس برسوں میں دنیا میں بحث کا موضوع رہی ہے۔ افسانوی مقامات(mythological sites) اور سیاحتی مقامات کو ڈیولپ کرنے پر خاص زور دیا گیا۔ نئے ایمس اور آئی آئی ایم جیسے اداروں کو کھولنے پر جس طرح سے مرکزی حکومت نے اہمیت دی، اس کا ہی نتیجہ ہے کہ آج صحت اور تعلیم کے شعبہ میں انقلاب نظر آنے لگا ہے۔ اس طرح الیکشن میں محض بے روزگاری اور مہنگائی کے ایشوز کو اپوزیشن کے ذریعہ ہوا دینا انصاف پر مبنی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ پھر بھی الیکشن کی اس ہلچل میں کون سے ایشوز مؤثر ہوں گے اور کون سی حصولیابیوں کو عوام اہمیت دیتے ہیں، یہ تو نتیجہ آنے پر پتا چلے گا، لیکن عوام اس وقت فیصلہ کن کردار میں ہیں، جو فیصلہ لیں گے اپنا اچھا-برا سمجھ کر ہی لیں گے۔