سونیا گاندھی کی سیاسی بصیرت کا امتحان

0

سیاسی قائدین دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو دانا اور دوسرے نادان دانا قائدین میں سیاسی چاپلوسی دور اندیشی حکمت عملی سیاسی پینترے چالبازی سے بھرپور توانا ہوتے ہیں جنکی چکنی چٹوری باتیں ایک عام انسان کو ہتھیلی میں جنت کی مانند لگتی ہے پر ایسے قائدین بڑے موقع پرست واقع ہوتے ہیں وقت اور حالات کی نوعیت سے عوام کو ورغلانے کا کام کرتے ہیں بلکہ عوامی جذبات کو اپنے اندر سرائیت کرتے ہوئے سرکس کے جوکر یا مشہورفلمی ہیروراج کپور کی ادا کاری کرنے بھی پس و پیش نہیں کرتےوہیں نادان قائدین جو سیاست میں اچھا خاصہ تجربہ رکھنے کے باوجود فہم و فراست سے عاری ہوتے ہیں شائد جن پر قدرت مہربان ہوتی ہے جنکی قسمت میں بار بار گدی کی بھی راہیں ہموار ہوتی ہیں جن پر کبھی بھی آزمائش کی گھڑی مصیبت کا پہاڑ بن سکتی ہے لیکن یہ قائدین نہ تو عوامی مفادات میں کھرے اترتے ہیں نہ دیش کے مفاد میں اور نہ ہی خود ان کی پارٹی کے مفاد کیلئے محض یہ رسم کی ادائیگی کیلئے ہمیشہ دستیاب رہتے ہیں ایسے قائدین کو اس مثال کے زریعہ تشبیہ دی جاسکتی ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔

ان دنوں ملک کی دونوں پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس عوامی مقبولیت کیلئے تذبذب کا شکار ہیں ایک طرف مودی جی چیتوں کے زریعہ عوام کا دل بہلا کر اپنی اداکاری پیش کررہے ہیں تو دوسری طرف ملک کی تجربہ کار پارٹی کانگریس اور اسکی تجربہ کار سیاستداں وملک کی طاقتور و مضبوط خاتون سونیا گاندھی آزمائشوں کے دور سے گذر رہی ہیں کیونکہ خود کانگریس کے صدر کیلئے کانگریس میں جسطرح کی سیاست ہورہی ہے وہ سونیا گاندھی کیلئے سیاسی بصیرت کا امتحان ہے کیونکہ جسطرح سے کانگریس کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے قومی صدر کا غیر گاندھی خاندان سے منتخب کرنے کا فیصلہ لیا گیا یہ اپنے آپ میں کانگریس کیلئے ایک نیا موڑ ہے جس دوڑ میں کانگریس کے سینئیر و تجربہ کار سیاستداں راجستھان کے اشوک گہلوت سب سے آگے تھے لیکن جسطرح سے انھوں نے اپنے ہی گھر میں جیسے ہی باغیانہ تیور کو اپنایا پھر منہ کی کھانی پڑی جنکی دوہری پالیسی کی لالچ نے انجام تک پہنچادیادراصل وہ راجستھان کے وزیر اعلی رہتے ہوئے کانگریس کے قومی صدر کا رول ادا کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اپنی نادان سیاست میں ناکام رہے جنکا یہ دوہرا معیار نے ثابت کردیا کہ وہ تجربہ کار سیاستداں ہوتے ہوئے بھی نادان سیاست داں کا لقب لینے میں کوئی کمی نہیں رکھی پھر وہی ہوا جو ہونا تھا اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے کے مترادف ہی ہوا کیونکہ انھوں نے سونیا گاندھی سے بات چیت کرنے کے بعد معافی بھی مانگی اور وہ کانگریس کے قومی صدر کی دوڑ سے بھی باہر ہوگئے جو اس ضرب المثال نَہ رَہے بانس نَہ بَجے بانسری کی طرح حال ہوگیا ۔

ابھی کانگریس کے قومی صدر کا انتخاب انتخابی مرحلہ کے زریعہ ہوگا کانگریس کے ماضی میں ذیادہ تر قومی صدر کا انتخاب اتفاق آراء سے کیا گیا لیکن گہلوت کے باغیانہ تیور کے بعد انتخابی مرحلہ کو ترجیح دی گئی یہ موقع مناسبت سے دانشمندی کا بہترین اقدام بھی ہے جسمیں اہم امیدوارششی تھرور اور ڈگ وجے سنگھ ہیں جب تک کانگریس کا یہ انتخابی مرحلہ مکمل نہیں ہوجاتا پھر اسکے بعد پارٹی کی توسیع و استحکام پھر 2024 کے لوک سبھا انتخابات یہ سب سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کیلئے آزمائشوں کے پہاڑ ہیں وہ اس لیئے کہ کانگریس کا صدر کوئی بھی ہو پر کانگریس گاندھی خاندان کے بغیر مضبوط نہیں بن سکتی اور نہ ہی گاندھی خاندان کی طرح قربانیوں کو پیش کرسکتی جنکا کردار جسم اور روح کی مانند ہے ۔

جسطرح سے راہل گاندھی نے ملکی سطح پر بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کیا ہے وہ ملک کے موجودہ منظر نامہ کی نوعیت سے بہت کار کرد ثابت ہورہی ہے جسطرح حکمران جماعت راہل کی اس یاترا سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہیکہ راہل کی یاترا نے مثبت نتائج کے اثر کا آغاز کردیا ہے ابھی صرف 25 دن کی یاترا میں بھاجپائی حکمرانوں کی نیند حرام ہوچکی ہے ابھی اس یاترا کے 125 دن باقی ہیں اور دس ریاستوں کا احاطہ کرنا باقی ہے جس سے ہم اور آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بیچ بھنور میں ڈگمگاتی کانگریس آہستہ آہستہ اپنا دم بھر رہی ہے ۔

لیکن اہم سوال یہ ہیکہ کیا کانگریس سونیا گاندھی,راہل گاندھی,پرینکا گاندھی کی محنت و مشقت سے اپنی ڈوبتی ناؤ کو بچا پائیں گے؟کیا وہ آئندہ 2024 میں ہونے والے انتخابات میں اپنا بہتر مظاہرہ کر پائے گی؟کیا وہ بھاجپا کو شکست دینے میں کامیاب ہوگی؟ان سوالوں کا جواب یہ ہیکہ پوری کانگریس کوپوری یکسوئی کے ساتھ میدان عمل میں کام کرنا ہوگا کانگریس کے ہر قائد کو منصب اور عہدہ کی خواہش سے باہر نکلنا ہوگا اپنے اندرونی اختلافات و مسائل سے اوپر اٹھکر ملک کے مفاد کو ترجیح دینی ہوگی صرف گاندھی خاندان کی محنتوں سے اقتدار حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ ہر گانگریسی کو جی توڑ کر محنت کرنی ہوگی ورنہ اگر کوئی بیچ بیچ میں باغیانہ تیور دکھاتا رہے گا تو راہل کی یاترا بھی بے معنی ہوکر رہ جائے گی کیونکہ عوام کی نظر اور توجہ پوری طرح سے کانگریس پارٹی پر مرکوز ہے لہذا جو عوام کانگریس کے قریب تر ہوتے جارہی ہے اب کانگریس کے قائدین کی زمہ داری بنتی ہیکہ وہ عوام کو اپنے اختلافات کے زریعہ بار بار مایوس نہ کروائیں اور نہ ہی عوام کو پارٹی سے دور ہونے دیں لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخابات تک کانگریس کیلئے جو کٹھن راستہ ہے پر خار راہیں ہیں یہ یوں ہی پار نہیں ہوسکتا بلکہ ہر موقع پرسونیا گاندھی کیلئے سیاسی بصیرت کا امتحان رہے گا ۔

سید سرفراز احمد

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS