عالمی امن کیلئے نفرت کا خاتمہ ضروری

0

عالمی امن کا کوئی بھی خواب نفرت کو ختم کیے بغیر پورا کرنا ممکن نہیں اور نفرت ختم کرنے کے لیے ناانصافی اور عدم مساوات ختم کرنا ضروری ہے مگر انسانیت اور انسانوں کی فلاح و بہبود کی باتیں کرنے والے عالمی لیڈروں میں سے اکثر کے قول و عمل کا تضاد یہ سمجھا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ وہ نفرت، ناانصافی اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں، اس لیے مذہب، نسل، خطے، زبان، تہذیب اور دیگر ناموں پر بڑھتی ہوئی نفرت باعث حیرت نہیں ہے، البتہ تشویش کی بات یہ ضرور ہے کہ اگر نفرت یوں ہی بڑھتی رہی تو عالمی امن کا کیا ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی انسانوں کے لیے راحت افزا ہے اور یہی جدید ٹیکنالوجی ان کی کئی پریشانیوں کی وجہ بھی ہے، اس کا استعمال نفرت کی تیز تشہیر کے لیے کیا جا رہا ہے۔ خود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس کو یہ بات قبول کرنی پڑی ہے، ’ہم دنیا بھر میں زینو فوبیا، نسل پرستی، عدم برداشت، خواتین کے خلاف پرتشدد بدگمانی، یہود دشمنی اور مسلم دشمنی کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔‘ اس طرح کی منفی باتوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے، اس اضافے کی اصل وجوہات کیا ہیں، اس پر وقت رہتے غور کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ دنیا انسانوں کے لیے جائے امن نہیں رہ جائے گی اور جو لوگ انسانوں کے لیے نئی دنیا کی تلاش میں ہیں، ان کی تلاش کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا۔ انتونیو گوتیریس کی اس بات پر غور کرنے کا وقت ہے، ’لبرل جمہوریتوں اور آمرانہ حکومتوں دونوں میں کچھ سیاسی لیڈران نفرت انگیز خیالات اور زبان کو مرکزی دھارے میں لا رہے ہیں اور اس طرح سے وہ اس رویے کو معمول کی کارروائی بنا رہے ہیں۔‘ اس کا نتیجہ امریکہ میں ٹرمپ کے آخری دنوں میں اقتدار کی منتقلی کے وقت دنیا نے دیکھا۔ سوال یہ ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹو ہل کی عمارت پر ٹرمپ کے حامی کا دھاوا کیا وقتی جوش کا نتیجہ تھا؟ بالکل نہیں! اس سے پہلے کے ٹرمپ کے بیانات دیکھ لیجیے۔ 25 مئی، 2020 کو امریکہ کے چند سفید فام پولیس والوں نے غیر سفید فام جارج فلوئیڈ کی سانسیں ان کے سینے میں گھونٹ دی تھیں تو اس کے بعد ٹرمپ نے کیا کہا تھا۔ ان کے پیش رو براک اوباما تو نوبل امن انعام سے سرفراز تھے مگر ان کی مدت صدارت میں 17 جولائی، 2014کو امریکہ میں سفید فام پولیس والوں نے غیر سفید فام ایرک گارنر کی سانسوں کو ان کے سینے میں دبا دیا تھا، وہ کہتے رہے، ’میں سانس نہیں لے سکتا۔‘ مگر انہیں مرنے تک اذیت میں مبتلا رکھا گیا۔ اس کے بعد اوباما نے نسل پرستی کے خلاف کون سی متاثر کن امریکہ گیر تحریک چلائی؟
مسلمانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ ان کی دلآزاری کرنا کوئی معیوب بات نہیں رہی۔ اگرکوئی اور نہیں تو کسی مسلمان کو ہی اس ’کار خیر‘ کے لیے کھڑا کر لیا جاتا ہے۔ مذموم خاکے بنانے کو اظہار رائے کی آزادی کا نام دیا جاتا ہے، حلال گوشت کے خلاف مہم کو مساوات کی بحالی کا نام دیا جاتا ہے، نقاب کے خلاف تحریک کو تہذیب و ثقافت کی حفاظت کا نام دیا جاتا ہے، مقدس کتاب کے اوراق کو نذرآتش کرنے کو احتجاج کا نام دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے، جو قوم علم کے میدان میں، جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں پچھڑ جاتی ہے، اس کے بیشتر لوگ سیاسی فہم سے بروقت کام نہیں لیتے، حالات بدلنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ حالات کا رونا روتے رہتے ہیں، اتحاد قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ خانوں میں بٹے ہونے کو دشمنوں کی سازش بتاکر اطمینان کی نیند سوجاتے ہیں، جو مذہب کی باتیں کرتے رہتے ہیں مگر مذہب کو سمجھنا اور سمجھانا نہیں چاہتے، انہیں اسی طرح سمجھایا جاتا ہے، بہلایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حالات نہیں بدلیں گے، ہمیشہ یوں ہی رہیں گے؟ اس کا جواب ایک لائن میں ہے کہ وقت یکساں نہیں رہتا، بدلتا رہتا ہے، حالات بدلیں گے مگر حالات کیسے بدلیں، اس کے لیے کوشش خود کرنی ہوگی۔ کس حد تک بدلیں، اس کے لیے بھی کوشش خود ہی کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کے لیے نیک فال یہ بات ہے کہ دنیا ابھی امن پسند لوگوں سے خالی نہیں ہوئی۔ نیوزی لینڈ کی لیڈر جاسنڈا آرڈرن امن پسندی کی ایک مثال ہیں۔ امن پسندی پر کنیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا موقف واضح ہے۔ انہیں ایسی سیاست پسند نہیں جو کسی نام پر انسانوں کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھتی ہے۔ اسی لیے ان کی حکومت نے کنیڈا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے امیرہ الغوابی کو خصوصی نمائندہ برائے اینٹی اسلامو فوبیا مقرر کیا ہے۔ امیرہ ایک صحافی بھی ہیں، انہیں اسلاموفوبیا کو ختم کرنے کے لیے اسلامی تعلیم کی ترسیل پر توجہ دینی چاہیے، یہ بتانے پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ اسلام ہی ہے جو ایک بے قصور انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل اور ایک بے قصور انسان کی حفاظت کو ساری انسانیت کا تحفظ مانتا ہے، اس لیے امن پسندی کا اظہار اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرکے ممکن نہیں ہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS