براعظم افریقہ کو خلفشار میں دھکیلنے کی کوشش

0

1960میں فرانس نے جس ملک نائیجر کو ’’آزاد‘‘ کیا تھاوہ شاید 2023 میں ایک بار پھر اس کے چنگل سے آزادی کے حاصل کرنے کا جدوجہد کررہا ہے۔ 26جولائی کو اپنے سرپرست اعلیٰ فرانس کی تمام تر توجہ اور کرم فرمائی کے باوجود نائیجر کے معزول صدر محمد بازو م اپنی کرسی نہ بچا سکے۔ ان کو صدارتی محل کے محافظوں نے گرفتار کرکے ایک نامعلوم مقام پر بھیج دیا ہے۔ یہ خبر فرانس اور امریکہ کے لیے دلخراش تھی کیونکہ فرانس اور امریکہ کی بڑی فوجیں مختلف مقامات پر تعینات ہیں جو اپنے اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ میں لگی ہوئی ہیں ، مگر کہا یہ جارہاہے کہ یہ فوجیں نائیجر اور قرب وجوار کے ساحل خطے میں مسلم دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے سرگرم ہیں اور وہاں جمہوریت کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔ کئی دہائیوں سے ساحلی خطہ دہشت گردی اور مختلف ملیشیائوں کی زد میں ہے اور اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک اس خطے میں نہ تو غریبی ختم کرپائے ہیں اور نہ ہی دہشت گردی۔ نائیجر کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے اور اب اس وقت نائیجر کی دو تہائی زمین ریگستان ہو چکی ہے اور مسلسل ریگستان کا رقبہ بڑھتا جارہا ہے۔
مذکورہ ملک انتہائی مفلوک الحالی کا شکار ہے۔ نائیجر کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی آبادی بہت تیزی ے بڑھ رہی ہے، مگر یہ ملک مغرب کے اس خطے میں ہے، جہاں تمام 15 مغربیممالک پر اپنی ایسی گرفتار بنائے ہوئے ہیں کہ ان کا حقیقی طور پر آزاد ہونا ناممکن دکھائی دے رہا ہے، مگر اس علاقے کے عوام آہستہ آہستہ سمجھتے جارہے ہیں کہ یہ غیر ملکی استبدادی پنجے ان کی گردن کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ پچھلے دنوں مالے اور اس کے بعد برکینیا فاسو میں فوجی بغاوتوں نے امریکہ اور فرانس کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ برکینیا فاسو میں کئی ماہ پہلے ایسی بغاوت ہوئی ہے، جس میں فوج کے ہی سربراہ کو معزول کیاگیا۔ فوجی سربراہ وہاں کے یہ معزول صدر کے عہدے پر قابض ہوگیا تھا اور اس نے اپنے سے پہلے کے صدر کو معزول کرکے و فوجی تختہ پلٹنے کے بعد اقتدار میں آیا تھا اور فرانس کے منظور نظر تھا، اپنی جان بچا کر فرانس کے سفارت خانہ میں چھپ گیا اور عوام نے سفارت خانہ کو گھیر لیا اور بڑی مشکل سے تمام حالات کو قابو میں کیاگیا۔ اس سے قبل مالے میں فوجی بغاوت کے بعد وہاں پر ایک نئی حکومت بنی جو فرانس کے منصوبوں اور مغربی ممالک کے مفادات کو چوٹ پہنچانے والی تھی۔ یہ غیر ملکی فوجیں مالے میں اقوام متحدہ کے بینر کے تحت کام کررہی تھیں، مگر ساتھ ہی بڑی تعداد میں کچھ فرانسیسی فوجی ایسے تھے جو آزادانہ طور پر اپنے مفادات حاصل کررہے تھے اور عزائم کو پورا کررہے تھے۔ مگر مالے میں مذکورہ فوجی ٹم بکٹو کی تاریخ مسجد کو واگزار کرانے اور وہاں کی عظیم ثقافتی ورثے کے تحفظ اور دہشت گردوں کی سرکوبی کا بہانہ کرکے پورے ملک کو اب بھی اپنے کنٹرول قائم کو باقی رکھے ہوئے ہیں اور وہاں سے نکلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ تمام ممالک قدرتی اور معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔
نائیجر میں محمد بازوم کی حکومت کے زوال کے بعد فوجی حکمرانوں نے اعلان کردیا کہ وہ فرانس کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کریں گے۔ فرانس کو بھیجے جانے والے یورینیم اور سونے کی سپلائی کو بند کردیا گیا ہے ۔
ظاہر ہے کہ اس کا براہ راست اثر فرانس کی معیشت پر پڑے گا، کیونکہ فرانس اپنی توانائی کی ضروریات نائیجر سے نکلنے والے یورینیم سے پوری کرتا ہے۔ یہ صورت حال اس کے لیے براہ راست اور فوری طور پر اثرانداز کرانے والی ہے۔ پچھلے دنوں فرانس نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ نائیجر میں کوئی فوجی مداخلت کا منصوبہ بنا رہا ہے، مگر مغربی ممالک اور خاص طور پر فرانس کے زیر اثر 15ممالک کے اقتصادی گروپ مغربی افریقہ کے اقتصادی ممالک کی تنظیم ای سی او ڈبلیو اے ایس کے ذریعہ گروپ کے نئے چیئرمین اور نائیجریا کے نائب صدر بولاٹینو کو آگے کرکے اس غریب ترین ملک کی فوجی ناکہ بندی کی جا رہی ہے اور اس کی معیشت کو کمزور کرنے کے اقدام کیے جا رہے ہیں۔ ان 15 ممالک کا ایک مشترکہ بینک ہے جو پورے خطے کی معیشت پر پورا کنٹرول رکھتا ہے۔ نائیجریا کے صدر نے نائیجر کے فوجی حکمرانوں کو وارننگ دی ہے کہ وہ فوری طور پر معزول صدر محمد بازوم کی حکومت کو بحال کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش ہے اور اس تنظیم کے ذریعہ فوجی کارروائی کرکے نائیجر کے نئے فوجی حکمرانوں پر دبائو ڈال کر جمہوریت بحال کرانے کے خوشنما ایجنڈے کے تحت کرایا جا رہا ہے جو غیر ملکی مداخلت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مغربی ممالک ان غریب اور قحط سالی کے شکار ملکوں کو تحفظ فراہم کرانے کے لیے اپنی انگلیوں پر نچائیںگے۔ ان ممالک کے بااثر،حساس اور دور اندیش حلقو ںمیں مغربی ممالک کی پالیسیوں کو لے کر کا فی تحفظات میں افریقی ممالک کے اور خاص طور پر ساحلی ممالک میں تال میل بنتا نظرآرہا ہے اور اس طرح کی بغاوتیں اور باغیانہ جذبات اپنے اپنے ممالک تک محدود نہیں ہیں۔
برکینیا فاسو اور مالے روس کے ویگنر گروپ کے ساتھ تعاون کو فروغ دے رہے ہیں اور ان ملکوں نے آگاہ کردیا ہے کہ نائیج پر کارروائی کی شکل میں یہ دونوں ممالک مالے اور برکینیا فاسو خاموش نہیں بیٹھیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی ممالک پورے خطے کو آگ میں جھونکتا جارہا ہے ۔ نائیجر کے قرب وجوار کے ممالک غریب ہیں۔ یہاں کی حکومتیں اور حکمراں غیر مستحکم ہیں اور مغربی ممالک کے دست نگر بنے ہوئے ہیں اوران کے دبائو میں اگر ایک دوسرے کے اندرونی سیاسی نظام میں مداخلت کرتے رہیں گے تو اس سے پورے براعظم میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS