جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو سال رواں کو عام الحزن قرار دیا جائےگا:قاری محمد طیب قاسمی
نئی دہلی :کووڈ۔ 19کی دوسری لہر نے پورے ملک میں کہرام مچا رکھا ہے۔ ہر دن کسی نہ کسی بڑی شخصیت کے انتقال سے دل ودماغ مغموم و محزون ہے۔ واٹس ایپ اور اخبار کھولتے ہوئے ایک ڈرسا لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کیا خبر آئے گی اور کس کی موت کی خبر چھپی ہوگی،، بالخصوص آج کل ہمارے اکابر ین کا اس تیزی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجانا ہم سب کے لئے بہت ہی صدمہ کی بات ہے۔ آخر ہم پر یہ کیسا زمانہ آگیا کہ ہم ایک حادثہ ابھی بھول نہیں پاتے کہ دوسرا حادثہ پیش آجاتاہے ، ایک زخم مندمل نہیں ہوپاتا کہ دوسرا زخم لگ جاتا ہے۔اپنے بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کی فرقت پراتنا زیادہ رونا دھوناہوچکا ہے کہ اب آنکھیں بھی خشک ہو چکی ہیں۔ اتنے صدمے جھیلے جاچکے ہیں کہ اب دلوں میں مزید سکت باقی نہیں ہے ، ملک بھر میں ہورہے سلسلہ اموات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے یہ عام الحزن ، اور عام الاموات تو نہیں، یا اللہ!ہم کمزوردلوں اورکم ہمتوں پر رحم فرمااور اکابر ین کی وفاتوں کا سلسلہ روک دے ، آمین۔مذکورة خیالات کا اظہار آج بعد نماز ظہر،دارالعلوم فیض محمدی ہتھیا گڈھ کی مسجد ”النور ،، میں تمام مرحومین کے لئے منعقدہ ایک تعزیتی نشست کے دوران ،ادارہ کے سربراہ اعلیٰ حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی نے کیا۔ادارہ کے سربراہ اعلیٰ حضرت مولانا قاری محمدطیب قاسمی نے اپنے تعزیتی خطاب میں فرمایا کہ ”جب بھی تاریخ لکھی جائے گی، توسال رواں کو عام الحزن قرار دیا جائے گا، کیوں کہ کورونا وباءکے دوران تعلیمی وملی میدان کے بڑے بڑے درجنوں امام ، قائد ، رہنماء، اپنی مثال آپ رکھنے والی عظیم شخصیات داغ مفارقت دیتے ہوئے راہی ملک عدم ہوگئیں۔ اللہ رحم فرمائے، کن ایام سے ہم گذررہے ہیں، کہ ہرروز نالہ و شیون ، ہر صبح ہر شام آہ وفغاں کا منظر، آج ایک کی رحلت تو دوسرے دن کسی اور کا سانحہ ، ایک سلسلہ لگا ہواہے، جو ٹوٹنا ہی چاہتا،انہی عظیم وباوزن شخصیات جو اس مہاماری کی بھینٹ چڑھ گئیں، حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب بھی تھے، جنہیں خالق عرش وفرش نے بڑی خوبیوں سے نوازہ تھا، وہ ایک جید عالم دین ، صاحب فکر ونظر ، سنجیدگی ومتانت کے پیکر ہونے کے ساتھ ، ملک کے دوعظیم اداروں کے قائد بھی تھے ، یقینا قاری صاحب کا انتقال ایک عالَم کا انتقال ہے آپ کے انتقال سے ایک دینی قلعہ منہدم ہوگیا ۔اس حادثہ فاجعہ سے جمعیة علماءہند سمیت ملک بھر میں پھیلے ہوئے فضلاءدارالعلوم وخدام جمعیت سخت صدمہ میں ہیں، اور افسردگی کے حال سے گذررہے ہیں، اللہ تعالیٰ قاری صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے اور اپنی جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے ۔آمین۔
قاری محمد عثمان صاحب ، دارالعلوم دیوبند کے چشم وچراغ اور جید عالم دین تھے اور اعلیٰ صلاحیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی متقی و پرہیزگار تھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو خاندانی شرافت ونجابت کے ساتھ علوم وفنون میں پختگی اور بلند اخلاق کی پاکیزگی جیسی بے شمار خوبیوں سے نوازہ تھا، آپ ایک لمبے عرصے تک طلبہ دیوبند کی علمی تشنگی بجھانے کے لئے تدریس خدمات بڑی خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،تقریر ہو، تحریر ہو، تصنیف ہو، تدریس ہو، ہر شعبہ میں وہ کامل تھے ، نیز یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ تدریسی شغل ہویا دفتر اہتمام کی ذمہ داریوں کا انہماک ، ہر شعبہ میں آپ کا کردار آب زلال کی طرح پاک وصاف رہا، اور اپنے کریمانہ اخلاق کی بلندی پر رہتے ہوئے ، جس طرح ایک لمبے عرصے تک دارالعلوم اور جمعیة علماءہندکی آبیاری اور خدمت کی ہے، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اس تعزیتی نشست میں قاری محمد عثمان صاحب کے علاوہ ، ملک کی دیگر اہم شخصیات جیسے مفتی عبد الرزاق بھوپالی، ناظم مدرسہ ترجمہ والی مسجد ، مولانا ابصارالحق قاسمی، مئو، بانی ادارہ دارالعلوم فیض محمدی کے چچا زاد بھائی مولانا اظہار اللہ ، مولانا حبیب الرحمان اعظمی ، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، مفتی محفوظ الرحما عثمانی ،مہتمم جامعة القاسم دارالعلوم الاسلامیہ ضلع سپول بہار ، مشہور مورخ مولانا اسیر ادروی، مدرسہ انجمن اسلامیہ مدنپور، کے کارگزار مہتمم مولانا ڈاکٹر الہام الدین قاسمی، مدرسہ حسینیہ گورکھپورکے استاذ حافظ صلاح الدین ، و ضلع مہراج گنج کے مقبول ومحبوب سیاسی رہنما جناب اعجاز احمد خان کے چچا زاد بھائی معراج صاحب کے لئے آیت کریمہ پڑھ کر ایصال ثواب کیا گیا۔
آنند نگر مہراج گنج //عبید الرحمن الحسینی