صبیح احمد
پہلے برطانیہ، اب امریکہ! پہلے رشی سنک برطانوی مسند اقتدار پر براجمان ہوئے، اب وویک راما سوامی نے امریکی مسند صدارت پر جلوہ افروز ہونے کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں تو کیا امریکہ کو بھی اپنے برطانوی ہم منصب جیسا ہندنژاد امریکی سربراہ ملنے جا رہا ہے؟
امریکہ میں آئندہ سال کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کی نامزدگی کی دوڑ میں 2 ہند نژاد امریکی بھی شامل ہیں جو ہندوستانی کمیونٹی کے امریکی سیاست میں بڑھتے ہوئے کردار اور اہمیت کا اظہار ہے۔ ایک طرف تجربہ کار سیاست داں اور سابقہ اعلیٰ سفارت کار نکی ہیلی ہیں جبکہ نامزدگی کے پہلے مباحثہ میں شریک ہونے والے دوسرے ہند نژاد امیدوار 38 سالہ وویک راما سوامی ہیں جو بائیو ٹیک کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ پہلے پرائمری مباحثہ کے بعد لاکھوں امریکی شہریوں نے یہ جاننے میں دلچسپی ظاہر کی ہے کہ آخر سب سے کم عمر امیدوار وویک راما سوامی کون ہیں اور وہ اس دوڑ میں شامل ہو کر کون سے مختلف خیالات و نظریات لے کر آئے ہیں؟ وویک راما سوامی نے حالیہ مہینوں میں اپنی زبردست تقریری مہارت اور بعض ایشوز پر اختراعی وژن کی وجہ سے اپنی طرف میڈیا کی بہت زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے۔ ریپبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں راما سوامی تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ایمرسن کالج کے ایک نئے سروے کے مطابق وہ فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینیٹس کے درجے پر پہنچ گئے ہیں۔ اس سروے میں راماسوامی اور ڈی سینٹیس 10-10 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ 56 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔ جون میں ٹرمپ 59 فیصد، ڈی سینیٹس 21 فیصد اور پینس 6 فیصد پر تھے، جبکہ راماسوامی صرف 2 فیصد پر تھے۔ اس کے بعد سے راماسوامی کو 8 فیصد کا فائدہ ہوا ہے۔ ڈی سینٹس11 فیصد اور ٹرمپ-پینس 3-3 فیصد کھو چکے ہیں۔
حالانکہ تمام تر تعریفوں کے باوجود وویک راماسوامی کے لیے ریپبلکن پرائمری میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف کھڑا رہنا فی الحال مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ ٹرمپ کی مقبولیت ان کے خلاف مقدمات کی تعداد کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ شاید اسی لیے وویک راماسوامی نے سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد اشارہ دیا ہے کہ اگر وہ ریپبلکن نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے ہیں تو وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ری پبلکن کے مشترکہ ٹکٹ پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ فی الحال سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ریپبلکن امیدواروں کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں اور ان کے حامی راما سوامی کو نائب صدر کے عہدے کا دعویدار سمجھتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ بھی اپنے بیانات میں راماسوامی کی کئی بار تعریف کرچکے ہیں۔ ساتھ ہی راماسوامی نے بھی کئی مواقع پر ٹرمپ کی تعریف کی ہے اور کئی بار ان کا دفاع بھی کیا ہے۔ راماسوامی نے کہا ہے کہ ٹرمپ نے نئے اصول بنائے ہیں۔ راماسوامی واحد ریپبلکن امیدوار ہیں جنہوں نے ٹرمپ کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو ٹرمپ کو معاف کر دیں گے۔ فلوریڈا میں ’ٹرننگ پوائنٹ کانفرنس‘ میں ٹرمپ کے حامیوں نے سب سے زیادہ توجہ راماسوامی کو دی۔ اس کانفرنس میں کرائے گئے ایک سروے میں 86 فیصد لوگوں نے ٹرمپ کی حمایت کی۔ جب ان کی دوسری ترجیح کے بارے میں پوچھا گیا تو 51 فیصد لوگوں نے راماسوامی کی حمایت کا اظہار کیا۔ ٹرمپ کے بہت سے حامیوں کا کہنا ہے کہ راماسوامی نائب صدر کے عہدے کے لیے بہترین امیدوار ہیں۔
راما سوامی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دیگر ریپبلکن امیدواروں کے برعکس وہ میڈیا ہاؤسز سے کھل کر بات کرتے رہے ہیں۔ اور ان کے تبصرے ان افواہوں کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ جوڑی 2024 کے صدارتی انتخابات میں ایک ساتھ جانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ کی مہم نے یہاں تک کہ پہلی ریپبلکن پرائمری بحث کے بعد وویک راماسوامی کی تعریف کی۔ بحث کے بعد وویک راماسوامی کی آن لائن فنڈ ریزنگ اور مقبولیت میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ سابق صدر کے بڑے بیٹے ڈونالڈ ٹرمپ جونیئر نے بحث کے بعد وویک راماسوامی کی تعریف کی اور کہا کہ ’میرے خیال سے ان کی کارکردگی شاندار ہے۔ میرا مطلب ہے، مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے وہی کیا جو رون ڈی سینیٹس کو کرنے کی ضرورت تھی۔‘ ڈونالڈ ٹرمپ کے نائب صدر کے طور پر الیکشن لڑنے کے بارے میں اشارے سے پہلے راماسوامی نے کہا تھا کہ ’میں حکومت میں کسی مختلف عہدے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ سچ کہوں تو میں وفاقی حکومت میں نمبر 2 یا 3 بننے سے پہلے نجی شعبے کے ذریعہ تبدیلی لاؤں گا۔‘یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مباحثہ کے بعد وویک راماسوامی گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے ریپبلکن امیدوار تھے، اس کے بعد ایک اور ہند نژاد امریکی نکی ہیلی تھیں۔
راما سوامی کا شمار کامیاب کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے اور امریکی فوربس میگزین کے مطابق اگست 2023 میں ان کے اثاثوں کی مالیت 950 ملین ڈالر ہے۔ راما سوامی 1985 میں امریکی ریاست اوہائیو میں ہندوستان سے آنے والے تارکین وطن کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والدین ہندوستان کے صوبہ کیرالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد وی گنپتی راما سوامی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کالی کٹ سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ ایک انجینئر تھے اور انہوں نے جنرل الیکٹرک کمپنی کے پیٹنٹ کے اٹارنی کے طور پر خدمات بھی انجام دیں۔ ان کی والدہ ماہرنفسیات ہیں جنہوں نے ہندوستان میں میسور میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی۔ وویک راما سوامی نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں وہ ہارورڈ پولیٹیکل یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے عملی سیاست میں رواں سال فروری میں اس وقت قدم رکھا جب انہوں نے ریپبلکن پارٹی کے 2024 کے الیکشن کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے پرائمری دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
راما سوامی کا آب و ہوا میں تبدیلی کے بارے میں بیان امریکی میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مباحثہ کے دوران انہوں نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی سے بجائے خود اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے اس مسئلہ کے حل کے لیے اپنائی گئی پالیسیوں سے مرتے ہیں۔ زیادہ تر امیدواروں نے یوکرین میں روس کی جنگ میں یوکرین کی حمایت کرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن اس میں قابل ذکر استثنیٰ وویک رام سوامی تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ امریکہ نے خود اپنے مسائل حل نہیں کیے ہیں، ایسے میں اس ملک (یوکرین) کی حمایت کرنا ’تباہ کن‘ تھا۔ ان کے اس بیان پر مقابل حریفوں نے شدید تنقید کی جن میں اقوام متحدہ کی سابق سفیر نکی ہیلی بھی شامل تھیں جن کا کہنا تھا کہ ’آپ (راماسوامی) کو خارجہ پالیسی کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور یہ نظر آتا ہے۔‘بہرحال ابتدائی مباحثہ میں وویک راما سوامی اپنے مدمقابل سیاستدانوں سے اپنے آپ کو ممتاز اور بہتر متبادل کے طور پیش کرنے کی بھر پور کوشش کرتے نظر آئے۔انہوں نے اپنے نظریات و خیالات انتہائی مدلل اور بہترین طریقے سے پیش کیے۔ بعض مبصرین نے تو انہیں ریپبلکن پارٹی کا ’ابھرتا ہوا ستارہ‘ بھی بیان کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ ابھرتا ہوا ستارہ امریکی افق پر چمک پاتا ہے یا نہیں۔
[email protected]