صبیح احمد
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں معروف کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے کو ایک طرح سے دفن کر دیا گیا تھا۔ اب نئے امریکی صدر بائیڈن کے دور اقتدار میں اس معاملے میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی انٹلیجنس کی رپورٹ کو عام کر دیا گیا ہے جس سے اس معاملے میں پھر سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایک حلقہ اس قتل کے لیے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کو ذمہ دار مانتا ہے۔ حالانکہ قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، اس کا ابھی تک حتمی طور پر تعین نہیں ہو سکا ہے لیکن سعودی ولی عہد اس کے لیے جولائی 2019 میں ’اخلاقی ذمہ داری‘ قبول کر چکے ہیں۔ ریاض نے آخر کار یہ تسلیم کر لیا تھا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں کے ضمن میں کیے گئے ایک آپریشن کے دوران غلطی سے جمال خاشقجی کی ہلاکت ہوگئی تھی۔ خاشقجی کی ہلاکت میں ملوث 5 اہلکاروں کو پہلے سزائے موت سنائی گئی تھی اور پھر بعد میں خاشقجی کے اہل خانہ کی جانب سے معافی کے بعد ان کی سزائیں 20 سال قید میں تبدیل کر دی گئی تھیں۔ بہرحال یہ معاملہ ایک بار پھر منظرعام پر آ گیا ہے اور لوگوں میں پھر سے چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ آخر اس قتل کے ذمہ دار کا تعین ہوپائے گا یا نہیں؟
امریکہ کی ایک نئی انٹلیجنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مبینہ طور پر ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانہ میں امریکہ میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی منظوری دی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کو جو ان کی آمرانہ طرز حکمرانی کے ناقد تھے، گرفتار کرنے یا ہلاک کرنے کے لیے ایک آپریشن کی منظوری دی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد خاشقجی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث 76 سعودی شہریوں پر ویزے کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ دریں اثنا سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے امریکی انٹلیجنس کی اس رپورٹ کو منفی اور غلط معلومات پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ سعودی عرب نے یہ بھی توقع ظاہر کی ہے کہ دیرپا امریکہ-سعودی تعلقات فروغ پاتے رہیں گے۔ اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے سفیر نے خاشقجی کے قتل میں پرنس محمد بن سلمان کے کردار والی رپورٹ پر سوال اٹھائے ہیں۔ عبداللہ المعلمی نے اس رپورٹ پر احتجاج کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’سینٹرل انٹلیجنس ایجنسی‘ کی نئی رپورٹ ’ہو سکتا ہے، ہونا چاہیے اور ہوا ہوگا‘ پر مبنی ہے اور شبہ کے علاوہ الزام ثابت کرنے کی اہل نہیں ہے۔‘ رپورٹ میںخفیہ حکام نے حالانکہ یہ نہیں کہا کہ پرنس محمد بن سلمان نے اکتوبر 2018 میں خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا بلکہ انہوں 4 صفحات کے دستاویز میں کہا کہ پرنس کا ملک کی سیکورٹی اور خفیہ تنظیموں پر مکمل کنٹرول ہے، اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سعودی حکام اس طرح کی مہم پرنس کی اجازت کے بغیر چلائیں۔ المعلمی نے اس حوالے سے واضح کیا ہے کہ ’اگر یہ ایک قانونی جواز ہے تو ابو غریب جرائم کے لیے امریکہ کے صدر، نائب صدر اور وزیر دفاع ذمہ دار کیوں نہیں تھے؟‘ ان کا اشارہ عراقی جیل کی 2004 میں سامنے آنے والی ان تصویروں کی طرف تھا جن میں امریکی فوجی قیدیوں پر مظالم کرتے نظر آ رہے تھے۔ عبداللہ المعلمی نے اپنے سلسلے وار ٹوئٹ میں یہ بھی کہا کہ ’شہزادے نے جرأت مندانہ طور پر اخلاقی ذمہ داری لی، ملزمان کو انصاف کے دائرے میں لے کر آئے اور خفیہ تنظیموں کو بہتر بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ معاملہ بند۔‘ ادھر عرب اتحادی ملکوں نے بھی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق اس امریکی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے مؤقف کی حمایت کی ہے ۔
وہائٹ ہاؤس نے واضح کیا تھا کہ ٹیلی فون کال میں صدر بائیڈن اور شاہ سلمان نے خطہ کی سیکورٹی، یمن میں جنگ کے خاتمہ کے لیے اقوام متحدہ اور امریکہ کی قیادت میں اقدامات سمیت سعودی عرب کو ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے عزم پر تبادلہ خیال کیا۔ اس حوالے سے وہائٹ ہاؤس کے اعلامیہ میں انسانی حقوق کے متعدد سعودی نژاد امریکی کارکنوں اور خواتین کے حقوق کی رضاکار کی رہائی کا ذکر بھی ہے لیکن جمال خاشقجی کے حوالے سے اس رپورٹ کا تذکرہ نہیں ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ صدر بائیڈن کی ٹیلی فون پر شاہ سلمان کے ساتھ بات چیت کے ایک دن بعد جاری کی گئی ہے جس کے بارے میں وہائٹ ہاؤس نے بتایا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ تعلقات مضبوط کرنے کی بات کی جبکہ خاشقجی کے قتل کے حوالے سے نئی رپورٹ کے اجرا کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اب رپورٹ کے مندرجات بائیڈن انتظامیہ پر اس دباؤ میں اضافہ کر دیں گے کہ وہ سعودی حکومت کو اس قتل کے لیے جواب دہ بنائے جس پر امریکہ اور دنیا بھر میں زبردست غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس انٹلیجنس رپورٹ کو عام کرنا اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے نئی امریکی انتظامیہ کے ایک ایسے ملک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑسکتا ہے جس پر صدر بائیڈن تنقید کرچکے ہیں لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو کئی حوالوں سے اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بھی سمجھتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکہ کے قانون سازوں کے ان مطالبات کو مسترد کر دیا تھا کہ اس رپورٹ کو جاری کیا جائے۔ البتہ اس وقت کی امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت اور ایران سے بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ریاض سے اتحاد کو ترجیح دی تھی۔
بائیڈن نے اپنی صدارتی انتخابی مہم میں عہد کیا تھا کہ وہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں انسانی حقوق کی پاسداری پر مزید زور دیں گے۔ صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کو ایسے مہلک ہتھیاروں کی فروخت روک دی جو ممکنہ طور پر یمن جنگ میں استعمال ہو سکتے تھے۔ بائیڈن انتظامیہ محمد بن سلمان سے بھی فاصلہ رکھے ہوئے ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی کہہ چکی ہیں کہ صدر بائیڈن صرف اپنے ہم منصب سعودی بادشاہ شاہ سلمان سے ہی رابطہ کریں گے۔ صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ٹیلی فون پر بات کی۔ وہائٹ ہاؤس نے واضح کیا تھا کہ ٹیلی فون کال میں صدر بائیڈن اور شاہ سلمان نے خطہ کی سیکورٹی، یمن میں جنگ کے خاتمہ کے لیے اقوام متحدہ اور امریکہ کی قیادت میں اقدامات سمیت سعودی عرب کو ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے عزم پر تبادلہ خیال کیا۔ اس حوالے سے وہائٹ ہاؤس کے اعلامیہ میں انسانی حقوق کے متعدد سعودی نژاد امریکی کارکنوں اور خواتین کے حقوق کی رضاکار کی رہائی کا ذکر بھی ہے لیکن جمال خاشقجی کے حوالے سے اس رپورٹ کا تذکرہ نہیں ہے۔ وہائٹ ہاؤس نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ کیوں خاشقجی کا معاملہ اس اعلامیہ میں شامل نہیں ہے۔
دراصل صدر بائیڈن سعودی عرب کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی انٹلیجنس کی رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس معاملے کو ایک بار پھر ہوا دی گئی ہے۔ صدر بائیڈن ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ واضح کر چکے ہیں کہ کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل پر امریکہ سعودی عرب کے لیے اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی لانے جا رہا ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ’میں نے سعودی عرب کے شاہ سے بات کی تھی، شہزادہ سے نہیں۔ میں نے انہیں واضح کردیا کہ قوانین تبدیل ہو رہے ہیں اور ہم اہم تبدیلیوں کا اعلان کرنے جارہے ہیں۔ اور حقیقت میں یہ یقینی بنائیں کہ اگر وہ ہم سے تعلقات بنانا چاہتے ہیں تو انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملوں سے نمٹنا ہوگا۔‘ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ بائیڈن جن انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں، وہ صرف مخصوص لوگوں اور ملکوں تک ہی محدود رہیں گے یا اس اصول کا اطلاق بلا تفریق دنیا کے ہر خطہ اور ہر افراد پر ہوگا؟
[email protected]