پنکج چترویدی
ایک مرتبہ پھر امید پیدا ہوئی ہے کہ ملک کے لیے لاعلاج ناسور بن رہے سب سے بڑے ماحولیاتی بحران کا حل ہوجائے گا۔ آئندہ سال 15؍اگست 2022 یوم آزادی تک پورے ملک میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی اشیا کی مینوفیکچرنگ، درآمد، اسٹوریج، تقسیم، فروخت اور استعمال کے اصولوں کے تحت پابندی کا اعلان حکومت نے کیا ہے۔ ایک مرتبہ استعمال میں آنے والے پلاسٹک کے سامان پر دو مراحل میں پابندی عائد ہوگی- پہلا مرحلہ جنوری 2022 سے شروع ہوگا جس میں پلاسٹک کے جھنڈے، غبارے اور کینڈی اسٹک بند ہوں گی اور پھر یکم جولائی 2022 سے پلیٹ، کپ، گلاس، کٹلری جیسے کانٹے، چمچ، چاقو، پوال، ٹرے، ریپنگ، پیکنگ فلمس، انویٹیشن کارڈ، سگریٹ کے پیکٹ وغیرہ کے پروڈکشن اور استعمال پر پابندی عائد کی جائے گی۔ ویسے تو کئی ریاستوں کی حکومتیں گزشتہ پانچ برسوں سے پلاسٹک یا پالیتھین کی حوصلہ شکنی کے لیے کام کررہی ہیں۔ تین سال قبل وزیراعظم نریندر مودی نے جب ’ایک مرتبہ استعمال والی‘ پالیتھین کا استعمال نہ کرنے کی اپیل کی تو اس مہم میں تیزی آئی تھی لیکن کووڈ کی ہولناکی میں وہ مہم ناکام ہوگئی۔
دہلی سے ملحق غازی آباد میں کئی برسوں سے دکانوں سے پالیتھین ضبط کرنے کی مہم تو چل رہی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ابھی عوامی شرکت والی مہم نہیں بن پائی ہے۔ غازی آباد میونسپل کارپوریشن نے تو بھنڈارے وغیرہ میں ڈسپوزیبل کے استعمال کو روکنے کے لیے باقاعدہ برتن بینک بنایا لیکن وہاں سے برتن لینے والے لوگ ہی آگے نہیں آئے۔ تین سال قبل مدھیہ پردیش حکومت نے بھی ’پنّی مکت‘ ریاست کی مہم چلائی تھی لیکن حال ہی میں ریاست کے بہت سے شہروں میں آئی دشواریاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان علاقوں کے سیور اور نالیاں اصل میں پالیتھین کے سبب جام تھیں اور تھوڑی سی برسات میں ان کے گھرمحلے دریا بن گئے۔ ملک میں کئی سو ایسے شہر ہیں جہاں پالیتھین پر پابندی ہے لیکن اس کے پروڈکشن پر تو پابندی ہے نہیں، لہٰذا کسی نہ کسی ذریعہ پلاسٹک کا کچرا ہمارے شہر-محلوں میں انبار بنتا جارہا ہے۔
کیرالہ حکومت کی ایک ہدایت غور طلب ہے جس میں سرکاری دفاتر میں انک پین کے علاوہ دیگر قلم پر پابندی لگادی گئی ہے۔ حکومت نے دیکھا کہ ہر ماہ 6لاکھ سے زیادہ پلاسٹک کے قلم یا ریفل کچرے میں شامل ہورہے ہیں۔ ہدایت کے نفاذ سے پہلے ہر دفتر میں مناسب سیاہی پہنچائی گئی اور اب وہاں عام لوگ بھی ریفل والے یا ایک مرتبہ استعمال کے بال پین کی جگہ اِنک پین استعمال میں لارہے ہیں جو کہ کم سے کم ایک سال تو چلتے ہی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جب تک پالیتھین کے متبادل سے بازار کو مطمئن نہیں کیا جاتا، اس بیماری سے نجات حاصل نہیں ہوگی۔
لوگ مانتے ہیں کہ پالیتھین تھیلی نقصان دہ ہے لیکن اگلے ہی لمحہ کوئی مجبوری ظاہر کرکے اسے ہاتھ میں لے کر چل دیتے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ ہر ایک آدمی یہ قبول کرلیتا ہے کہ پالیتھین فطرت، معاشرہ اور جانوروں کے لیے جان لیوا ہے، لیکن اس کا لالچ ایسا ہے کہ کسی نہ کسی بہانے سے اسے چھوڑ نہیں پارہا ہے۔ پورے ملک میں میونسپل کارپوریشن کے بجٹ کا بڑا حصہ سیور اور نالیوں کی صفائی میں جاتا ہے اور نتائج صفر ہی رہتے ہیں اور اس کا بڑا سبب پورے سیوریج کے نظام میں پالیتھین کا انبار ہونا ہے۔ اب تو زمین، زیرزمین پانی اور یہاں تک کہ سمندر کے نمک میں بھی پلاسٹک کے نقصان دہ ذرات گھلنے لگے ہیں۔ اس کی اصل وجہ ایک تو زہریلی پنّیوں کا پروڈکشن بند نہ ہونا اور اس کے صارفین کو متبادل دستیاب نہیں ہونا ہے۔
کچے تیل کی ریفائننگ سے ملنے والے ڈیژل، پٹرول وغیرہ کے ساتھ پالیتھین بنانے کا مصالحہ بھی پیٹرو پیداوار ہی ہے۔ یہ انسان اور جانور دونوں کے لیے جان لیوا ہے۔ گھٹیا پالیتھین کا استعمال سانس اور جلد سے متعلق امراض اور کینسر کے خطرہ میں اضافہ کرتا ہے۔ پالیتھین کی تھیلیاں ختم نہیں ہوتی ہیں اور زمین کی زرخیزی کی صلاحیت کو تباہ کرکے اسے زہریلا بنارہی ہیں۔ ساتھ ہی مٹی میں ان کے دبے رہنے کی وجہ سے مٹی کے پانی جذب کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوتی جارہی ہے، جس سے زیرزمین پانی کی سطح پر اثر پڑتا ہے۔ پالیتھین کھانے سے گایوں اور دیگر جانوروں کے مرنے کے واقعات تو اب عام ہوگئے ہیں۔ پھر بھی بازار میں سبزی لانا ہو یا پیک دودھ یا پھر کرانہ یا کپڑے، پالیتھین سے دلچسپی نہ تو دکان دار کی کم ہوپارہی ہے اور نہ ہی خریدار کی۔ مندروں، تاریخی یادگاروں، پارک، سینکچوری، ریلیوں، جلوسوں، شوبھایاتراؤں وغیرہ میں اس کا استعمال بے تحاشا ہورہا ہے۔ شہروں کی خوبصورتی پر اس سے گہن لگ رہا ہے۔ پالیتھین نہ صرف حال بلکہ مستقبل کو بھی تباہ کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان جب کسی سہولت کا عادی ہوجاتا ہے تو اسے تبھی چھوڑ پاتا ہے جب اس کا متبادل ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پالیتھین گزشتہ دو دہائیوں کے دوران 20لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ذریعہ معاش بن چکا ہے جو کہ اس کے پروڈکشن، کاروبار، پرانی پنّی جمع کرنے اور اسے کباڑی کو فروخت کرنے جیسے کام میں مصروف ہیں۔ وہیں پالیتھین کے متبادل کے طور پر جو سنتھیٹک تھیلے بازار میں متعارف کرائے گئے ہیں، وہ ایک تو مہنگے ہیں، دوسرے کمزور اور تیسرے وہ بھی قدرتی یا گھلنے والی اشیا سے نہیں بنے ہیں اور ان کے بھی کئی برے اثرات ہیں۔ کچھ مقامات پر کاغذ کا بیگ اور لفافے بناکر مفت میں تقسیم بھی کیے گئے لیکن ڈیمانڈ کے مقابلہ میں ان کی سپلائی کم تھی۔
اگر حقیقت میں بازار سے پالیتھین کا متبادل تلاش کرنا ہے تو پرانے کپڑے کے تھیلے بنوانا واحد متبادل ہے۔ اس سے کئی لوگوں کو متبادل ملتا ہے-پالیتھین بنانے والی چھوٹی چھوٹی یونٹیں لگائے ہوئے لوگوں کو کپڑے کے تھیلے بنانے کا، اس کے کاروبار میں مصروف لوگوں کو اسے دکان دار تک پہنچانے کا اور عام لوگوں کو سامان لانے لے جانے کا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح پالیتھین کی ڈیمانڈ ہے اتنی کپڑے کے تھیلے کی نہیں ہوگی، کیوں کہ تھیلا کئی کئی مرتبہ استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن کپڑے کے تھیلے کی قیمت، بنانے کی رفتار بھی اسی طرح پالیتھین کے مانند تیز نہیں ہوگی۔ سب سے بڑی دقت ہے دودھ، جوس، بنی ہوئی کری والی سبزی وغیرہ کے کاروبار کی۔ اس کے لیے ایلیومینیم یا دیگر مخلوط معدنیات کے اشیائے خوردنی کے لیے معقول کنٹینر بنائے جاسکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات گھر سے برتن لے جانے کی عادت پھر سے لوٹ آئے تو کھانے کا ذائقہ، اس کی کوالٹی، دونوں ہی قائم رہیں گے۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پالیتھین میں پیک دودھ یا گرم کری اس کے زہر کو بھی آپ کے پیٹ تک پہنچاتا ہے۔ آج کل بازار مائیکروویو میں گرم کرنے لائق ایئرٹائٹ برتنوں سے بھرا پڑا ہے، ایسے کئی کئی سال تک استعمال ہونے والے برتنوں کو بھی متبادل کے طور پر غور کیا جاسکتا ہے۔ پلاسٹک سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے بایوپلاسٹک کو بڑھاوا دینا چاہیے۔ یایو پلاسٹک چینی، چقندر، بھٹّہ جیسے حیاتیاتی طور پر پیدا ہونے مادّوں کے استعمال سے بنائی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں کچھ سال پنّی کی جگہ کپڑے کے تھیلے اور دیگر متبادل کے لیے کچھ سبسڈی دی جائے تو لوگ اپنی عادت بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ لیکن یہ خرچ پالیتھین سے بڑے پیمانہ پر ہورہے نقصان کے مقابلہ میں بے حد کم ہی ہوگا۔
خیال رہے کہ 40مائیکران سے کم پتلی پنّی سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ سرکاری عملوں کو ایسی پالیتھین بنانے والے کارخانوں کو ہی بند کروانا پڑے گا۔ وہیں پلاسٹک کچرا چن کر پیٹ پالنے والوں کے لیے متبادل کے طور پر بنگلورو کے تجربہ پر غور کرسکتے ہیں، جہاں لاوارث پھینکی گئی پنّیوں کو دیگر کچرے کے ساتھ ٹریٹمنٹ کرکے کھاد بنائی جارہی ہے۔ ہماچل پردیش میں ایسی پنّیوں کو ڈامر کے ساتھ گلا کر سڑک بنانے کا کام چل رہا ہے۔ جرمنی میں پلاسٹک کے کچرے سے بجلی بھی بنائی جارہی ہے۔ متبادل تو اور بھی بہت ہیں، بس ضرورت ہے تو ایک طویل مدتی منصوبہ بندی اور اس پر عمل آوری کے لیے زبردست قوت ارادی کی۔
یہاں پر کیرالہ حکومت کی ایک ہدایت غور طلب ہے جس میں سرکاری دفاتر میں انک پین کے علاوہ دیگر قلم پر پابندی لگادی گئی ہے۔ حکومت نے دیکھا کہ ہر ماہ 6لاکھ سے زیادہ پلاسٹک کے قلم یا ریفل کچرے میں شامل ہورہے ہیں۔ ہدایت کے نفاذ سے پہلے ہر دفتر میں مناسب سیاہی پہنچائی گئی اور اب وہاں عام لوگ بھی ریفل والے یا ایک مرتبہ استعمال کے بال پین کی جگہ اِنک پین استعمال میں لارہے ہیں جو کہ کم سے کم ایک سال تو چلتے ہی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جب تک پالیتھین کے متبادل سے بازار کو مطمئن نہیں کیا جاتا، اس بیماری سے نجات حاصل نہیں ہوگی۔
[email protected]