جیک ڈورسی کے الزامات

0

مرکز کی مودی حکومت پر آئے دن یہ الزامات لگتے رہتے ہیں کہ وہ جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کی آزادی سلب کررہی ہے۔ کبھی ’فریڈم ہائوس‘ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان نے عالمی جمہوری رہنما کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کی اپنی صلاحیت ترک کر دی ہے اور ہندوستان میں بنیادی اقدار اور سب کیلئے مساوی حقوق کی قیمت پر تنگ نظر ہندو قوم پرست مفادات کو بلند کیا جا رہا ہے تو کبھی ورلڈ ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان کی رینکنگ لڑھکنے کی خبر آتی ہے۔لیکن مودی حکومت ان تمام خبروں کو سیاسی اسٹنٹ قرار دے کر اس میں سازش کے تانے بانے تلاش کرنے لگتی ہے۔ اب ایک بار پھر مودی حکومت پر ’زبان بندی‘ کے ایسے ہی سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ الزام کسی ہندوستانی نے نہیں بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کے بانی اور سابق سی ای او جیک ڈورسی نے لگایاہے۔جیک ڈورسی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان میں کسانوں کی تحریک کے دوران حکومت نے انہیں ٹوئٹر بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔انٹرویو میں جب ٹوئٹر کے سربراہ کی حیثیت سے غیر ملکی حکومتوں کے دباؤ کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈورسی نے ہندوستان کی مثال دی۔یوٹیوب چینل ’بریکنگ پوائنٹ‘ کے انٹرویور نے جب ان سے پوچھا کہ دنیا بھر سے طاقتور لوگ آپ کے پاس آتے ہیں اور طرح طرح کے مطالبات کرتے ہیں۔ آپ اخلاقی اصولو ں کے آدمی ہیں۔ آپ ان حالات سے کیسے نکلیں گے؟ یہ سوال کرتے ہوئے ان سے کسی ملک یا ہندوستان کا نام نہیں لیاگیاتھا صرف طاقتور لوگوں کے مطالبات کے بارے میں پوچھاگیا تھا۔اس سوال کے جواب میں جیک ڈورسی نے کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس نے کسانوں کی تحریک کے دوران ہم سے بہت سی درخواستیں کیں، کچھ صحافیوں کے ٹوئٹر ہینڈل پر پابندی لگانے کو کہا جو حکومت پر تنقید کر رہے تھے۔ یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ایسا نہ کرنے ہندوستان میں ٹوئٹر بند کردیا جائے گا اور ٹوئٹر کے ملازمین کے گھروں پرچھاپے مارے جائیں گے۔
جیک ڈورسی کے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت وضاحتوں پر اتر آئی ہے۔ الیکٹرانکس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت راجیو چندر شیکھر کادعویٰ ہے کہ جیک ڈورسی کی قیادت میں ٹوئٹر اور ان کی ٹیم مسلسل ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔2020 سے 2022 کے درمیان ٹوئٹر نے ہندوستان کے قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے، سختیوں کے بعد اس نے جون 2022 میں قانون کی تعمیل شروع کی۔ راجیوچندرشیکھر کا کہنا ہے کہ کسان تحریک کے دوران دنیا نے دیکھا کہ ٹوئٹر اسی طرح کام کرتا رہا، نہ کوئی جیل گیا اور نہ چھاپے مارے گئے۔کچھ ایسا ہی ردعمل بی جے پی لیڈر روی شنکرپرساد نے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جیک ڈورسی کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ اگر لال قلعہ پر ترنگے کی توہین کی گئی جو کہ سچ ہے اور اگر اس مواد کو روکنے کیلئے کہا گیا تو اس میں غلط کیا ہے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ یہ آزادی اظہار کی ہے، بعد میں انہوں نے ہماری بات مان لی۔
حکومت جتنی چاہے صفائی اور وضاحتیں پیش کرے لیکن حقیقت کو کسی بھی حال میں چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔ایک سال سے زیادہ عرصہ تک چلنے والی کسان تحریک کو حکومت نے کچلنے اور بدنام کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے کسانوں کو غلط بتانے کے ساتھ ساتھ ان پر خالصتانی ہونے اور ملک سے غداری تک کے الزامات لگائے گئے، نہ جانے کتنے کسانوں کو گرفتار کرلیاگیا۔ کسانوں کو ملک اور بیرون ملک سے ملنے والی اخلاقی حمایتوں کو ملک کے خلاف قرار دیاگیا۔ ماہر ماحولیات گریٹاتھنبرگ کی حمایت کو ’ٹول کٹ‘ سے تعبیر کرتے ہوئے پورے ملک میں اودھم مچایا۔اس دوران حکومت نے ٹوئٹر کو ہدایت دیتے ہوئے انہیں 1100سے زیادہ اکائونٹس کی فہرست بھی پیش کی تھی جنہیں بلاک کیاجانا تھا۔حکومت کی ہدایت کے بعد ٹوئٹر نے کچھ اکائونٹس بلاک بھی کردیے لیکن بعد میں ان میں سے زیادہ تر کو بحال کردیاگیا۔ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے ملک میں سیاسی حقوق اور شہری آزادی کی صورتحال مسلسل خراب ہے۔جمہوری روایتوں کی پامالی کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں پرناروااور ناجائز دبائو ہے، صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں میں اضافہ ہوا ہے۔حکومت اپنے ناقدین اور مخالفین کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے، اسے پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اختلاف کرنے والوں سے آزادی کا حق چھینا جارہا ہے، ان پر اندھادھند الزامات لگائے جارہے ہیں۔ صحافی،سیاسی اور سماجی کارکن، طلبا اور خواتین تک حکومتی جبر کے شکار ہیں۔
جیک ڈورسی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے مداحوںمیں شامل رہ چکے ہیں اور 2018میں مودی جی سے ملاقات کے بعد جیک ڈورسی نے اپنی انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی اور نریندر مودی کی ملاقات کی تصویر بھی پوسٹ کی تھی۔لیکن آج یہی جیک ڈورسی مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسی اور غیر جمہوری طرزعمل کے بارے میں الزامات لگارہے ہیں تو اس کی صداقت پر شبہ مشکل ہے۔ بہتر تویہ ہوگا کہ صفائی اور وضاحتوں کے بجائے مودی حکومت اپنی طرز حکمرانی کا جائزہ لے اور مکمل جمہوریت کی راہ پر ہندوستان کو آگے لے جائے ورنہ ایسے الزامات سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS