حج سے متعلق احکام خداوندی

0

مولانا عبدالحفیظ اسلامی

سورہ مائدہ میں ہے کہ (ترجمہ)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میںشکار نہ مارو، اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اسی کے ہم پلہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میںسے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچا یا جائے گا، یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میںچند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، یا اس کے بعد روزے رکھنے ہوں گے، تا کہ وہ اپنے کئے کا مزہ چکے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اسے اللہ نے معاف کردیا لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ شکار کے ذریعہ سے ایک آزمائش میںڈالنے والے ہیں لہٰذا خبردار ہوجائو کہ حالت احرام میں شکار نہ مارو کیونکہ اللہ رب العزت اس امتحان کے ذریعہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون اس حکم کی پابندی کرتا ہے اور کون نافرمانی کرتا ہے اور یہ بھی کہ نافرمانی، حکم عدولی کرنے والوں کو سخت عذاب دیئے جانے کا ذکر فرمایا گیا۔
اگر کوئی ا س گناہ کا ارتکاب کرے؟ مضمون ہذا کیلئے جو آیت ابتداء میں پیش کی گئی ہے اول تو اس میں فرمایاگیا کہ حالت احرام میں شکار نہ مارو، پھر فرمایا اگر کوئی اس طرح کا عمل عمداً کرے (جان بوجھ کر شکار کرے تو) اس کا کفارہ یہ بتایا گیا ہے کہ جس جانور کا شکار کیا گیا ہے اس کے ہم پلہ جانور (گھریلو چوپایوں میں سے) اللہ تبارک تعالیٰ کی نذر کیلئے خانہ کعبہ بھیجے۔
مسکینوں کو کھانا کھلائے:اگر ایسا نہ کرسکتے ہوں، یعنی حالت احرام میںشکار کرنے کے گناہ کے کفارہ کے بطور قربانی کا جانور کعبتہ اللہ کو بھیجنے کیلئے معذور ہو تو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ جس جانور کا شکار کیا گیا تھا اس کی قیمت کے برابر مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔
آخری صورت میں روزے رکھے:پھر آگے فرمایا گیاکہ اگر مسکینوں کو کھانا کھلانا دشوار ہوتو اتنے روزے رکھے جتنا کہ مسکینوں کو کھانا کھلانا عائد ہوتا ہے۔
کفارہ کا فیصلہ تم میں دو عادل کریں:اور یہ بھی حکم فرمادیا گیا کہ کفارہ کا فیصلہ از خود تم نہ کرو بلکہ تم میں سے دو عادل (مسلمان)اشخاص کریں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ شیطان تمہیںاپنے نفس کی جانب داری کی طرف مائل کردے لہٰذا تمہیںچاہئے کہ اپنے جرم کے کفارہ کا فیصلہ از خود تم نہ کرو بلکہ تمہارے دو مسلمان بھائی جو کہ عادل و ثقہ ہوں،یہی لوگ کریں گے۔
اس میں حکمت کا پہلو یہی ہے کہ اپنے نفس کی جانبداری کا امکان قطعی طور پر باقی نہیںرہتا اور کفارہ صحیح طور پر ادا کردیا گیا تو عند اللہ گرفت نہیں ہوگی۔
خبردار اب تک جو کچھ ہوا سو ہوا : آیت مبارکہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے اس بات کا اعلان فرما رہے ہیںکہ دیکھو میرے پیارے بندو پہلے جو کچھ ہوچکا تمہیںمعاف کیا جاتا ہے۔ یعنی حکم نازل ہونے سے پہلے کی گئی خلاف ورزی جرم نہیں کہلائے گا۔ جلالین نے اس جملے ’’عفا اللہ‘‘ کی تشریح یوں فرمائی ہے۔
’’آیت ’’عفا اللہ‘‘ الخ کے ایک معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آیت کے نازل ہونے یا اسلام سے پہلے جرم یا احرام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شکار کیا ہے وہ اگرچہ پہلے مقررہ قوائد کی رو سے برا تھالیکن چونکہ اسلام لانے سے پہلے یا حکم نازل ہونے سے پہلے تھا، اس لئے قابل عفو ہے تاہم آئندہ اگر کوئی اس ممانعت کی خلاف ورزی کرے گا تو اس ارتکاب کو پچھلے جرم کے لحاظ سے عود ہی سمجھا جائے گا،اس لئے مستحق انتقام قرار دیا جائے گا۔
جرم کے اعادہ کی صورت میں اللہ کا انتقام: آیت کے آخر میں ایک سخت قسم کی تنبیہ کی جارہی ہے کہ جس کسی نے بھی اگر ایسی حرکت کی یعنی جرم کا اعادہ کیا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے ضرور بدلہ لیں گے۔ اللہ کی ذات اتنی بلند و بالا ہے کہ سارے ارض و سما پر غالب ہے اور مجرمین سے بدلہ لینے کی طاقت اپنے اندر بدرجہ اتم رکھتی ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے غلبہ کو کوئی روک نہیں سکتا اور نہ ہی اس کی طاقت و قوت کا مقابلہ کرنے کی کسی میں صلاحیت ہے۔ لہٰذا ایسے زبردست طاقت والے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے کہ اس کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں پاتا۔
آیت سے متعلق ضروری مسائل: شکار خواہ وہ آدمی خود کرے،یاکسی دوسرے کو شکارمیں کسی طور پر مدد دے دونوں باتیں حالت احرام میں منع ہیں، نیز اگر محرم کی خاطر شکار مارا گیا ہو تب بھی اس کا کھانا محرم کیلئے جائز نہیںہے۔
اس حکم عام سے موذی جانور مستثنیٰ ہیں۔ سانپ، بچھو، باولا کتا اور ایسے دوسرے جانور جو انسان کو نقصان پہنچانے والے ہیں،حالت احرام میںمارے جاسکتے ہیں۔محرم کو جس جانور کا شکارکرنا حرام ہے اس کا ذبح کرنا بھی حرام ہے اگر اس کو ذبح کرے گا تو اس کا حکم مردار کا سا ہوگا۔(معارف القرآن )

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS